خدشات—–پروفیسریحیٰ خالد

پروفیسر یحیٰ خالد
yahyakhalid42@gmail.com

—– خدشات—–

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد اور ایوب خان کی مارشل لاء حکومت کے بعد ایسے ایسے تماشے ہوئے ہیں کہ اب تو ایک صحیح کام پربھی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہے ۔ یہ زیر سطور اور دیوار کے پیچھے والے معاملے اس قدر عام ہوتے ہیں کہ ہر شے پر اعتبار اٹھ گیا ہے۔پچھلی حکومتوں میں جب بجلی کی لوڈشیڈنگ کا رواج عام ہوا تو غریب توخیر پہلے بھی پنکھے ( دستی ہو جؤیا چھت کے ساتھ لٹکاہوا) سے اپنا گرمی کا زور توڑنے کا بندوبست کر رہے تھے اور اگر یہ بھی نہ ہو تو دن کو توت کا سایہ میسر ہو جاتاہے اور رات چھت پر چارپائیاں ڈال کر رات گزار لیتے ہیں اور گزر بسر کر لیتے رہے ہیں مگر سوا ل تو ہے شہروں میں رہنے والوں کا کہ جن کے بنگلوں میں صحنوں کا بھی رواج نہیں ہے اور دفتروں میں کام کرنے والوں کا کہ جو اپنی فائیلیں لے کر توت کے سائے میں بھی نہیں جا سکتے ۔ ان لوگوں کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھا نے والوں نے ایسا کیا ( دروغ بر گردن راوی ) کہ انہوں نے باہر سے جنریٹر درآمد کئے۔ اب جنریٹر چلانے کے لئے بجلی کا نہ ہونا ضروری ہے اس لئے حکومت نے اپنے پارٹی کارکنوں کی تجارت کو فروغ دینے کے لئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ شروع کر دی۔ اب گرمی میں تودکان دارووں کو ، دفاتر میں کام کرنے والوں کو ، بڑے بنگلوں کے رہاشیوں کو تو اپنی گرمی کو دور کرنے کے لئے تو بجلی کی ضرورت ہے اسی لئے ان لوگوں نے جنریٹر کی خریداری میں تیزی دکھائی اور جس نے یہ جنریٹر منگوائے تھے اُس کا کام بن گیا ۔ اور اس کے بعد بجلی کے کارخانے بھی لگے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ختم کی گئی مگر اس کے بعد کہ جب جنریٹر بک چکے ۔ ا س طرح کے اور بھی بہت سے تماشے ان جمہوری حکومتوں میں دیکھے گئے اس لئے اب تو ہر حکومت کے ہر کام پر شک ہو رہا ہے۔پاکستان میں ڈینگی کا حملہ پہلے بھی ہوا تھا اور حملہ پنجاب پر ہوا تھا۔ اُس وقت کے وزیر علیٰ جناب شہباز شریف اور پاگلوں کی طرح صبح چھ بجے سے رات دس دس بجے تک بازاروں اور گاؤں گاؤں دوڑتے پھرے اور ڈینگی کو ختم کر کے دم لیا۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان نے ان کی اس تگ دو کی وجہ سے وزیر اعظم جناب نواز شریف اوروزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کا نام ہی ڈینگی برادرز رکھ دیا تھا۔ خیر وہ توہوا اور جب تک شہباز شریف پنجاب کا وزیر اعلیٰ رہا ڈینگی کو پنجاب میں آنے کی جرات نہ ہوئی۔مگر شہباز شریف کے وزارت سے ہٹتے ہی ڈینگی نے بھی اپنے پر پھیلانے شروع کر دیئے۔ اب اُسے معلوم تھا کہ اُس کو روکنے والا کوئی نہیں ہے ۔اب ملک پر راج پاک صاف لوگوں کا ہے۔ اور یہ لوگ کسی بھی بیماری پھیلانے والے کیڑے کو دکھ دینا اپنے لئے غلط سمجھتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اس کیڑے کو کھلا چھوڑا تاکہ وہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چاروں صوبوں میں ڈینگی نے اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں اور اس کی رکاوٹ کے لئے کوئی بھی کام نہیں کیا گیا ۔ نہ کے پی کے میں ، نہ پنجاب میں ،نہ سندھ میں اور نہ بلوچستان میں کسی جگہ بھی ڈینگی کے مچھر کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی حکومت نے کوئی بھی بچاؤ کے لئے کام نہیں کیا ۔اب صور ت حال یہ ہے کہ جو مچھر دو دن میں ختم ہوسکتا تھا اُس نے خود کو اتنا تکڑا کر لیاہے کہ کسی بھی طرح قابو نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب جب ملک بھر کے ہسپتال ڈینگی کے مریضوں سے بھر گیا ہے۔ اب نہ مریضو ں پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ڈینگی کے مچھر کو قابو کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ آپ ایک چھوٹے سے گروہ کو تو قابو کر سکتے ہیں مگر ایک بہت بڑی فوج کو قابو کرنا ایک بہت ہی مشکل بات ہو جاتی ہے۔ اب تو ڈینگی نے لوگوں کو موت کے منہ میں بھی دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔اللہ جانے اس کا انجام کیا ہو گا مگر ایک شک جو پچھلے واقعات کو سامنے رکھ کر ہمارے ذہن کو تنگ کئے بیٹھا ہے اور اللہ کرے کہ یہ صحیح نہ ہو مگر کیا ایسا تو نہیں ہے کہ کہیں سے مچھر دانیوں کی ایک کھیپ کسی گودام میں پڑی سڑ رہی تھیں کہ ڈینگی نے حملہ کیا تو ان مچھر دانیوں کے مالکان کو فائدہ پہنچانے کے لئے اس مچھر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تاکہ یہ اپنے زور و شور سے اپنے پر پھیلائے اور لوگوں کو ہسپتالوں میں پہنچائے اور ان مریضوں کی حفاظت کے لئے مچھر دانیوں کا استعمال کیا جائے اورگودام میں رکھی مچھر دانیوں والے اپنے گھر کو بھر لیں ۔ عوام کا کیا ہے وہ تو ان مقتدر ہستیوں کے لئے مرنے مارنے پر ہر وقت تیار ہو تے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں