زرداری کا فارمولا——-شاہد اعوان

سیاست ایک بے رحم کھیل ہے اس میں شکل و صورت، عقل و دانش کی کوئی حیثیت نہیں۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وقت کے بڑے بڑے جابر و ظالم حاکموں نے اپنے زیر تسلط رعایا پر جابرانہ حکمرانی کی مگر آخرکار ان کا عبرتناک انجام بھی دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ تاہم جس نے صبر و برداشت کا دامن تھاما اور اپنی ذات کی نفی کر کے خلقِ خدا کے لئے آسانیاں پید اکیں وہ دنیا میں بھی سرخرو ٹھہرا اور آخرت میں اس کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کیا جائے گا۔ غرور و تکبر انسان کے لئے ہمیشہ رسوائی اور تباہی کا سامان پیدا کرتا ہے۔ گزشتہ روز سینیٹ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے اور توبہ تائب ہونے کے لئے کافی ہے۔ انسان کے تمام اعضاء اور ان کی ساخت کا مکمل کنٹرول اللہ وحدہ لاشریک کے قبضۂ قدرت میں ہے، ووٹ ڈالتے وقت اللہ اور اس بندے کی ذات کے سوا کوئی تیسرا دیکھنے والا نہیں ہوتا جب ضمیر مطمئن نہ ہو اور ووٹ کا حقدار بھی کوئی دوسرا ہو تو بڑے بڑے وفاشعار اور گہری دوستی کے دعویدار بھی ایک لمحے میں حق کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات عام آدمی کے لئے کبھی اہم اور قابلِ توجہ نہیں رہے بلکہ یہ تو سراسر خواص کا انتخاب ہوتا ہے اور وہی فیصلے کے پابند ہوتے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر اس مرتبہ عام آدمی بھی اس انتخاب میں دلچسپی لے رہا تھا جس کی وجہ اچانک سابق وزیرا عظم یوسف رضا گیلانی کا سینیٹ کا امیدوار بن جانا تھا جو اس الیکشن کی دلچسپی کا سبب بنا۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے بدترین مخالف بڑے بڑے سیاستدان بھی ان کے سیاسی دائو پیچ سے ناصرف واقف ہیں بلکہ اب تو معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی ان کے ”فلسفے” کا اسیر ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری خود کہتے ہیں کہ انہیں یہ وصف 11سال کی قیدِ تنہائی نے عطا کیا ہے۔ جیل انسان کو ‘ولی’ کے رتبے پر فائز کردیتی ہے اور بعضوں کو مزید بگاڑ کر شیطان کا چیلہ بھی بنا دیتی ہے۔ آصف زرداری نے دورانِ اسیری صوفیاء کی تعلیمات اور ان کی سیرت کا مطالعہ کیا ان کے فرامین پڑھے کہ وہ کس طرح اپنی ذات کی نفی کر کے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے، انہوں نے بانی پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کا بھی بخوبی مطالعہ کیا اور جب وہ جیل سے باعزت بری ہوئے تو کندن بن چکے تھے انہوں نے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کے پانچ سال مکمل کیے ان کی مفاہمانہ سیاسی فلسفے پر تاریخ کے اوراق ہمیشہ گواہی دیں گے۔ جبکہ موجودہ حکمرانوں نے انتقام ، تہمت اور الزام تراشی کا سہارا لے کر مخالف سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور حریفوں کو جس بے دردی سے تختۂ مشق بنا رکھا ہے اور سب سے بڑھ کر حکمران جماعت نے عوام کے ساتھ جو جھوٹ بولے یقینا اس کا کریڈٹ کوئی اور نہیں لے سکتا نہ ہی آئندہ کوئی جرأت کر سکے گا۔ حالیہ دنوں میں مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز نے لانگ مارچ اور احتجاجی تحریک کی جو کال دے رکھی تھی اسے آصف علی زرداری کی سیاسی آنکھ بڑی باریک بینی اور انہماک سے دیکھ رہی تھی لیکن ان کا ”فلسفہ” کچھ اور کہہ رہا تھا وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکے تھے کہ ایک طرف وزیراعظم اپنے ایم این ایز کو نظر انداز کر کے دیوار سے لگا رہے ہیں اور دوسری طرف مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے چنانچہ جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب ناصرف پی ٹی آئی کے پارلیمنٹیرینز حکومتی پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں اور وہ کسی نعم البدل پر تیار ہو سکتے ہیں تو انہوں نے گرم لوہے پر چوٹ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔۔۔ وہ ایک طرف نوجوان اپوزیشن قیادت کے آگے بند باندھ رہے تھے تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ مسلسل رابطوں میں بھی تھے یعنی اس چومکھی جنگ میں وہ صرف اپوزیشن کو یکسو اور یکجا رکھنے میں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا رہے تھے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حکومت کی اتحادی جماعتوںمسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور اختر مینگل سے بھی قریبی رابطے رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ حکمران طبقہ الزامات در الزامات کا راگ الاپتے ہوئے مخالفین کے گلے میں پھندا ڈالنے کے درپے تھا۔ اتحادی جماعتوں کے اکابرین بھی حکمرانوں کے رویے سے سخت نالاں و پریشان تھے اور سب سے بڑھ کر اسٹیبلشمنٹ بھی آئے روز بجلی، گیس، پٹرول، آٹا، چینی اور روزمرہ کی اشیائے خوردنی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے پر خلقِ خدا کی دہائیاں بھی ان پر پوری طرح عیاں تھیں، اس صورتحال میں آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت نے اپنا کام دکھایا اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس بات پر راضی کر لیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ق کے ساتھ مل کر معاملات درست کیے جائیں یوں پنجاب کا سیٹ ا پ زیرک سیاستدان چوہدری پرویزالٰہی جبکہ مرکز کی ذمہ داری مسلم لیگ ن کو دے کر بلکتے عوام کے لئے کوئی داد رسی کا سامان پیدا کیا جائے اور پھر سینیٹ کی چیئرمین شپ ہردلعزیز اور سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے والی سیاسی شخصیت سید یوسف رضا گیلانی کو دے دی جائے تو اگلے اڑھائی سال اس سیٹ اپ کو دے کر ملک کو بیرونی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے اور معیشت کی ڈولتی ہوئی کشتی کو سنبھالا دیا جا سکے کہ موجودہ حکمران اندرون و بیرون ملک دونوں محاذوں پر بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔ ہر پاکستانی اس فارمولے پر ناصرف سکھ کا سانس لے گا بلکہ زرداری کی صحت و تندرستی کے لئے دعا گو بھی ہو گا کہ ملک الزامات اور گالم گلوچ سے نہیں چلا کرتے!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں