چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی ————– شاہد اعوان، بلاتامل

سلطنت کے کسی بھی منصب کے لئے عہدیدار کا چنائو کرتے وقت احتیاط کا دامن ملحوظ خاطر رہنا چاہئے جبکہ عہدیدار کا ہر شک و شبہ سے مبرا ہونا ازحد ضروری ہے۔ قرونِ اولیٰ سے لے کر خلفائے راشدین کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بعض عہدے شخصیات کے عمل و کردار کے متقاضی ہوا کرتے ہیں۔ ذاتی پسند و نا پسند اور انا کی تسکین کی خاطر ریاستی عہدیداروں کا چنائو اداروں کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہو جایا کرتا ہے۔ ایوانِ بالا کی اہمیت و وقار کا تقاضا ہے کہ اس کی سربراہی کے لئے ایسی شخصیت کا انتخاب کیاجائے جو ملک و قوم کے لئے دنیا بھر میں بالعموم اور وطن عزیز میں بالخصوص عزت و تکریم کا باعث ہو۔ حالیہ سینیٹ انتخابات کے دوران سید یوسف رضا گیلانی کا سینیٹر منتخب ہونا خود اس ادارے کے لئے باعثِ افتخار ہے کیونکہ وہ ناصرف سینئر ترین پارلیمنٹیرین ہیں بلکہ حب الوطنی، خاندانی نام و نسب اور عمل وکردار میں مثالی شخصیت کے حامل بھی ہیں۔ معروف روحانی خانوادے سے نسبت بھی انہیں ان کے ہمعصر شخصیات سے ممتاز کرتی ہے وہ حسنی حسینی سید زادے اور حضرت غوث پاک کی اولاد میں سے ہیں ان کی گفتار، حسنِ برتائو اور اعلیٰ اخلاق ظاہری شکل و وجاہت کو اور بھی خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ اگر ہم بطور سپیکر قومی اسمبلی ان کے کردار کا جائزہ لیں تو انہیں ناصرف اپنے ہم عصروں بلکہ ماضی کے بہت سے سپیکر صاحبان میں ایک واضح فرق محسوس ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں ہم سید یوسف رضا گیلانی کی خود نوشت ”چاہِ یوسف سے صدا” سے چند اقتباسات قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے رقم کررہے ہیں: جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت (1993-96ئ) قائم ہوئی تو یہ معاملہ درپیش ہوا کہ سپیکر کس شخصیت کو بنایا جائے؟ اس بات کا فیصلہ خود بی بی شہید کے بے حد اصرار پر بڑی مشکل سے یوسف رضا گیلانی کو اس بات پر آمادہ کیا گیا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ بطور سپیکر وہ اپنے انتخابی حلقے سے دور ہو جائیں گے۔ اس وقت وہ سب سے کم عمر سپیکر منتخب ہوئے انہیں 106 ووٹ جبکہ ان کے مدمقابل گوہر ایوب خان کو 90ووٹ ملے تھے، سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہیں رات کو پارٹی میٹنگ اور عشائیے میں مدعو کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی ”سپیکر غیر جانبدار ہوتا ہے اس لئے پارٹی میٹنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔” 1994ء میں قومی اسمبلی میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی جونہی سپیکر کو اطلاع ملی وہ فورا پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں پہنچے انہوں نے آگ بجھانے والے عملے کو خاص طور پر ہدایت کی کہ پاکستانی پرچم ہر صورت محفوظ رہنا چاہئے، قومی پرچم تو بچ گیا لیکن بانیٔ پاکستان کا پورٹریٹ جلنے سے بچ نہ سکا۔ انہوں نے خاص طور پر نیا پورٹریٹ تیار کروایا اور سابقہ سپیکر صاحبان کی تصاویر بھی اسمبلی میں آویزاں کرائیں جو آج بھی پارلیمنٹ ہائوس کا حصہ ہیں۔ 1994ء میں جب وہ چین کے دورے پر تھے تو اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی جس میں اسیر اراکین اسمبلی شیخ رشیداحمد، حاجی محمد بوٹا اور شیخ طاہر رشید کو رول 90کے تحت قومی اسمبلی میں لانے کا مطالبہ کیا گیا، وزیراعظم اور پارٹی دبائو کے باوجود بطور سپیکر انہوں نے اپنی رولنگ دی اور اسیر پارلیمنٹیرینز کو جیلوں سے پارلیمنٹ ہائوس بلایا ۔ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ وزیراعظم اور آصف علی زرداری کی خواہش کے باوجود سندھ کے ایک سیاستدان کولمبی چھٹی پر ہونے کی وجہ سے نااہل کرنا مقصود تھا اس پر بھی سپیکر نے اتفاق نہیں کیا اور غیر حاضر ممبر اسمبلی کی چھٹی منظور کر لی گئی۔ بھٹو کے بڑے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو نے اسمبلی کا اجلاس دیکھنے کی خواہش ظاہر کی جس پر سپیکر نے درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں ہائوس میں بلا لیا حالانکہ ان دنوں مرتضیٰ بھٹو اور بے نظیر بھٹو میں شدید رنجش تھی اور بول چال بھی بند تھی۔ اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں جن میں سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے اجداد کے بتائے گئے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے قانون و قاعدے سے کبھی انحراف نہیں کیا، انہیں عام لوگوں کو ملازمتیں دینے کی پاداش میں دس سال قید بھی کاٹنا پڑی اس دوران انہیں اپنی والدہ صاحبہ اور بہن کے جنازے میں شرکت بھی نہیں کرنی دی گئی یوں اصولوں کی خاطر بہادری سے جیل کاٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ 33سالہ رفاقت پر انہیں کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔ حالیہ سینیٹ انتخاب میں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ان کی چیئرمین سینیٹ نامزدگی پر اتفاق خود ان کے لئے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کی بنیاد پر یوسف رضا گیلانی کا انتخاب بطور چیئرمین سینیٹ مستقبل میں ہونے والی قانون سازی اور پارلیمنٹیرینز کے عزت و وقار میں اضافے کا باعث بھی ہو گا۔ کیونکہ ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ وہ اس وقت تک اپنی جماعت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ضرور ہیں لیکن جیسے ہی وہ چیئرمین سینیٹ منتخب ہو ئے تو پھر حکومت و اپوزیشن دونوں کے حقوق کے بڑے ضامن بن جائیں گے اور یہی کردار انہیں دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتا ہے ان کے لئے بڑے بڑے عہدے اہمیت نہیں رکھتے۔ پاکستان بھر میں تمام پارٹیوں میں ان کے لئے بے پناہ عزت و احترام موجود ہے حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اعلیٰ سیاسی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو بلامقابلہ چیئرمین سینیٹ بنا دیں یقینا اس اقدام سے حکومت کو ہرگز پچھتاوا نہیں ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں