خوشبوئوں کا سفیر ——- شاہد اعوان

لمبے تڑنگے اُس خوش اخلاق آفیسر کے سامنے چند دیہاتی عورتیں اور مرد اپنا مافی الضمیر یوں بیان کر رہے تھے جیسے اپنے کسی عزیز رشتہ دار سے مخاطب ہوں نہ لہجے میں کوئی جھجک نہ ہی اندازِ گفتگو میں خوف کا کوئی شائبہ۔۔۔ جبکہ سامنے سرکاری منصب پر بیٹھا آفیسر سائلین کی شکایت اور مسئلہ سر جھکائے پوری توجہ اور انہماک سے یوں سن رہا تھا جیسے اپنے سینئر کے سامنے ہاتھ باندھے احکامات بجا لا رہا ہو۔ جب بے خبر دیہاتی اپنی عرضداشت پیش کر چکے تو مذکورہ آفیسر نے سر اٹھایا اور سامنے بیٹھے اپنے ماتحت کو مختصر الفاظ میں احکامات لکھوائے اور ان دیہاتیوں کو انتہائی خوش دلی سے جانے کی اجازت دے دی کہ چند روز میں آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا آپ کو دوبارہ یہاں میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات سے سادہ لوح دیہاتیوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں یعنی انہیں اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اتنا گھمبیر مسئلہ اس خداترس آفیسر نے چند منٹوں میں حل ہونے کا انہیں مژدہ سنا دیا تھا جس کے لئے نہ جانے انہیں کتنے دفاتر اور عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے۔
مذکورہ منظرنامہ اسسٹنٹ کمشنر فتح جنگ عظیم شوکت اعوان کے دفتر کا تھا جن کے فلاحی کاموں کی شہرت اور عوامی مسائل سے آگاہی کے چرچے تحصیل فتح جنگ سے نکل کر اب ضلع بھر میں پھیل چکے ہیں۔ سوچا تھا کہ اچانک ان کے دفتر جا کر یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا چنانچہ اس روز رم جھم برستی بارانِ رحمت میں فتح جنگ پہنچا تو سرگرم نوجوان ایڈمنسٹریٹر میونسپل کمیٹی کے افسران اور اہلکاروں کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد سائلین بے دھڑک ان کے دفتر میں جا کر بیٹھ گئے جونہی ہم وہاں پہنچے تو مذکورہ بالا مناظر دیکھ کر دل کو اطمینان ہوا کہ سیاستدانوں سے لے کر کھڑپینچوں اور دلالوں نے ویسے تو آسمان سر پر نہیں اٹھا رکھا کہ پر عزم اور با ہمت اے سی فتح جنگ شہریوں کے مسائل کو حل کرنے میں کتنی گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ خیر تعارف کرایا تو کہنے لگے کہ آپ چند منٹ میرے آفس میں بیٹھیں میں چیف آفیسر خان بادشاہ کے ساتھ ملحقہ پارک میں جاری کام کا معائنہ کر کے آتا ہوں پھر خود ہی بولے کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ 39کنال کا یہ رقبہ جس کی مالیت یقینا کروڑوں میں ہو گی جو ان کی آمد سے قبل کچرے کا ایک بہت بڑا ڈھیر تھا یہ سرکاری پلاٹ سارے شہر کی گندگی اور کچرے کی آماجگاہ بن چکا تھا یعنی یہ سرکاری اراضی اپنے اندر کئی دہائیوں سے گندگی اور غلاظت سہتی چلی آرہی تھی کہ ایک مردِ درویش اسسٹنٹ کمشنر نے گزشتہ سال اگست 2020ء میں جب چارج سنبھالا تو بلدیہ دفتر کے عقب میں غلاظت اور بدبو کے بھبھوکے اٹھتے دیکھ کر اس سے رہا نہ جاتاوہ حکومتی وسائل کی عدم دستیابی کے ہاتھوں دل ہی دل میں کڑھتا رہتا مگر جب نیت صاف ہو، جذبے صادق ہوں اور من میں کچھ کرنے کی تڑپ جوش مار رہی ہو تو پھر راستے اللہ پاک خود ہی کھول دیا کرتا ہے اسبابِ دنیا پلک جھپکنے کی دیر میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ اے سی فتح جنگ نے علاقہ کے ان صاحبِ حیثیت اشخاص سے رابطہ کیا جو دولت کے انبار ہونے کے باوجود اپنے شہر کے لئے کچھ نہیں کر پاتے، اس طرح پلاٹ سے نصف صدی سے زائد کا جمع شدہ گند صاف کرا کر اسے ایک خوبصورت تفریحی پارک میں بدل دیا جہاں اب رنگ و نور اور خوشبوئوں کا بسیرا ہو گا ہر جانب موسمِ بہار کے رنگ بکھرے نظر آئیں گے، بچوں اور خواتین کے لئے یہ دلفریب پارک تیاریوں کے آخری مراحل میں ہے بچوں کے لئے نئے جھولے لگائے جا رہے ہیں جمنازیم کا سامان پہنچ چکا ہے جو علاقے کے نوجوانوں کے لئے صحت افزا تفریح کا باعث بنے گا۔ عظیم شوکت اعوان نے اہلِ فتح جنگ پر ایک احسانِ عظیم یہ کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ برس اسی پلاٹ کے فرنٹ پر فتح جنگ کے نوجوان طلبا اور اہلِ علم و دانش کے لئے لائبریری بنا کر علم کی پیاس بجھانے والوں کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا ہے جو کتاب دوست اور علم و ادب کے قدردانوں کے لئے کسی نعمت سے ہرگز کم نہیں۔ گزشتہ ہفتے اے سی موصوف نے حقدار اور نادار خاندانوں کی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرنے کا بندوبست کیا اور یہ سب کچھ علاقے کی تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے۔ جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والے اعوان گھرانے کے اس سپوت نے علاقے میں جو نئی اور قابلِ رشک تاریخ رقم کی ہے وہ عشروں سے علاقائی وسائل پر براجمان سیاستدانوں کو کب پسند آ سکتے ہیں۔۔۔ کہتے ہیں علاقے کے سیاستدان جب کسی سرکاری افسر سے ناخوش ہوں تو سمجھ لیں کہ وہ پبلک کے دلوں میں گھر کر چکا ہے۔ گزشتہ برس حسن ابدال میں بھی اسی قبیل اور فکر کا حامل اسسٹنٹ کمشنر عدنان انجم راجہ کی شکل میں نیک نامی کما کر شہرتِ دوام پا چکا ہے جس نے حسن ابدال کی تاریخ میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ جنہیں برسوں یاد رکھا جائے گا ۔ سوچتا ہوں ایسے کام سیاستدان کیوں نہیں کر پاتے؟ ان کی سوچ نالیوں اور گلی محلوں کی تعمیر و مرمت سے آگے کیوں نہیں بڑھ پاتی؟ ان کے ہاتھوں کھیلوں کے میدان ، بچوں اور خواتین کے لئے پارک کیوں نہیں بنتے؟ اگر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بنیادی ضرورتوں کے سامان پیدا کر دئیے جائیں تو ناصرف شہروں میں آبادیوں کے دبائو پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ چھوٹے شہروں کی رونقیں بھی بحال ہوسکتی ہیں۔ نوجوان بیوروکریٹس میں ایسی لاٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے عظیم اعوان جیسے جرأت مند بیوروکریٹ کے پیچھے خاندانی تربیت اور اکیڈمی میں اچھے اساتذہ اور انسٹرکٹرز کا کمال ظاہر ہوتا ہے جنہوں نے ان کی کردارسازی میں بنیادی کردار ادا کیاہے بلاشبہ یہ سب اسی کا ثمر ہے کہ ان جیسے افسران نے اپنی آسائشوں کو پسِ پشت ڈال کر اپنی تمام تر توانائیاں عوام الناس کی خدمت کے لئے وقف کر دی ہیں یہی نیک نیتی اور مخلوقِ خدا کی خدمت ان کے لئے زندگی میں کامیابیاں اور اعلیٰ مناصب کے لئے سنگِ میل ثابت ہوں گی۔ ایسے افسران ہی دراصل خوشبوئوں کے سفیر ہوا کرتے ہیں وہ جہاں بھی جائیں گے اپنی ناقابلِ فراموش خوشگوار یادوں کی مہک سے چاروانگِ عالم کو معطر کرتے چلے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں