متاثرین تربیلہ کا فیڈر اور ایوب فیملی

ساٹھ کی دھائی میں فیلڈمارشل ایوب خان کو تربیلہ ڈیم بنانے کی سوجھی اور یوں لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرکے ان کے گھروں اور ان کی کھیتی باڑی پر دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا ڈیم بن گیاکم و بیش 135گائوں اس کی جھیل کے نظر ہوگئے اور اب چھ دھائیاں گزرنے کے باوجود متاثرین کی بستیوں کو اب تک بنیادی سہولیات بھی نہیں میسر۔ آئے روز یہ لوگ اپنے حقوق کے لئے اپنے سیاسی نمائندوں کے حجروں اور ان کے گھروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ متاثرین کی بستی غازی ہملٹ کی بجلی کا مسئلہ نصف صدی گزرنے کے باوجود حل نہیں ہوسکا۔ سارے پاکستان کو ان کی قربانی کے طفیل بجلی مل رہی ہے لیکن یہ بستی ابھی تک بے جا لوڈشیڈنگ سے تنگ ہیں۔ یہاں یہ بات اور مزے کی ہے کہ گزشتہ نصف صدی سے ہر بار فیلڈمارشل ایوب خان کی فیملی کے ہی ہر فرد کو اس حلقہ کے قومی اسمبلی کی نمائندگی دی گئی۔ چالیس سال تک گوہر ایوب خان یہاں سے منتخب ہوتے رہے اور کبھی سپیکرتو کبھی وفاقی وزیر رہے ان کے کچھ عرصہ جیل کے دورمیں ان کی بیگم زیب گوہر ایوب اس علاقہ کی منتخب نمائندہ رہیں پھر گوہر ایوب خان نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔  جنرل پرویز مشرف کے دورمیں’’ انڈر گریجیویٹ‘‘ گوہر ایوب خان کی بجائے ان کے فارن کوالیفائیڈ سپوت عمر ایوب خان اس حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ہیں عمر ایوب خان بھی وفاقی وزیر رہے اور آج کل قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن ہیں ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہے۔اپنے وفاقی وزیر خزانہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے قومی اسمبلی کی سب سے بڑی تقریر کی تاہم کبھی بھی متاثرین کے لئے کوئی خیر خواہ کام نہیں کیا۔ یہاں کے لئے بجلی اور گیس جیسے بنیادی سہولیات دینے میں بھی ابھی تک امیدوں پر ہی کا م چل رہاہے۔

ہم میں سے اکثریت جانتی ہے کہ تربیلہ ڈیم کی بجلی پیداوار چار ہزار سے زائد میگا واٹ بجلی ہے اور ابھی مستقبل قریب میں مکمل ہونے والے پانچویں توصیحی منصوبہ سے ڈیڈھ ہزار میگاواٹ بجلی مزید بنے گی یوں تربیلہ ڈیم چھ ہزار سے زائد بجلی قومی فیڈر کو مہیاکرے گا۔ایک طرف یہ بجلی وطن عزیز کے اندھیروں کو دور کرے گا انڈسٹری کام کرے گی وہاں پر صرف بجلی کی مد میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپوں کی آمدن ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ تربیلہ جھیل کے پانی سے ساراپنجاب اور سندھ سیراب ہوتا ہے وہ علیحدہ ہے جس سے یہ دونوں صوبے خوب پیداوار حاصل کرکے اپنے صوبہ کے لئے غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ صوبہ بھر کے لوگوں کے لئے کئی ترقیاتی کام کرتے ہیں لیکن نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا بلکہ یہ متاثرین تربیلہ ڈیم کی بستی غازی ہملٹ ابھی بھی بنیادی سہولیات کے لئے پریشان ہے، گیس کی شدید کمی ہے بجلی کی طویل ترین لوڈشیڈنگ تو گویا ان کا مقدر بن چکاہے اور پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے یہ لوگ ہر بار ایوب فیملی کے کسی ممبر کو قومی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرلیتے ہیں اور فیلڈمارشل ایوب خان کا پوتہ اسمبلی میں اتنی اہم پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی اپنے ان غریب اور بے چارے ووٹرز کےلئے خاطر خواہ کچھ نہ کرسکے ۔ آج کا ان کا مسئلہ ہے کہ ان کا فیڈر گندگر کے پہاڑی علاقہ کے ساتھ ہے اور وہاں پر آئے روز ہونے والے مسائل کی وجہ سے یہ علاقہ تحصیل سے صرف دو سو میٹر کے فاصلے میں ہونے کے باوجود شہری سہولیات سے مستفید نہیں ہوپارہا۔ علاقہ میں بارش کی چند بوندیں ہونے کے ساتھ ہی ان کا بجلی کا فیڈر آف ہوجاتا ہے اور پھر گھنٹوں اس کی مرمت میں لگ جاتے ہیں۔ آدھا دن لوڈشیڈنگ میں گزر جاتاہے اور آدھا دن مرمت میں۔ تحصیل غازی کا یہ اہم علاقہ اپنے ممبر قومی اسمبلی عمر ایوب خان سے اس مسئلہ کے حل کے لئے اب بھی پرامید ہے۔

میں اپنے اس کالم کے زریعے ان متاثرین تربیلہ ڈیم کی آواز نہ صرف ان کے اپنے نمائندوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔فیلڈمارشل ایوب خان کے ایک پوتے عمر ایوب خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں ان ہی کے ایک کزن صوبائی وزیر بھی ہیں۔ بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے نڈر اور بے باک وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور تک بھی پہنچانا چاہتاہوں کہ وہ جہاں صوبہ کے پن بجلی کے خالص منافع کی بات وفاق سے کریں وہیں پر اس پن بجلی کی پیدوار کےلئے اپنے گھر بار کی قربانی دینے والے متاثرین تربیلہ ڈیم کو بھی نہ بھولیں اورغازی ہملٹ کو کم از کم بجلی گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولیات تو مہیاکروادیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے یہ بھی درخواست ہے کہ غازی انڈسٹریل سٹیٹ کو بھی جلد از جلد فعال کریں تاکہ علاقہ کے لوگوں کے روزگار کا مسئلہ بھی کسی حدتک حل ہوسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں