”مقام شکر” اور ”مقام صبر”……………انیلہ محمود

انسان کی نفسیات کو سمجھنے کے ہزار دعوے کئے جائیں مگر تمام دعوے ریت کی بھر بھری دیوار ثابت ہوتے ہیں اور آج تک تمام دعوے دعوے ہی رہے ہیں۔کوئی بھی انسانی نفسیات کی الجھی گتھیوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکا۔چند افراد پر تحقیق کر کے ایک اصول وضع کر لیا جاتا ہے اور اسے پیمانہ بنا کر لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ خوشی کی کیفیت میں انسان کا کیا رد عمل ہوتا ہے اورغم کی کیفیت میں کیا ردعمل ہوتا ہے،ردعمل میں کمی بیشی خوشی و غم کی شدت پر منحصر ہوتی ہے۔
ایک معیار اللہ پاک کا تخلیق کردہ بھی ہے جس کی صداقت پر کوئی شک نہیں۔اگر انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات میں اسی معیار کی پیروی کرے تو زندگی نہایت سہل اور دل پرسکون ہو جاتا ہے۔مگر یہ آسانی اور سکون حاصل کرنے کے لئے بہت حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی حد تک تو اللہ کی دین ہوتا ہے اور باقی کے لئے انسان کو خود کوشش کرنا پڑتی ہے۔تبھی تو اللہ کی بارگاہ میں اعلیٰ مقام حاصل کر کے مومن کے درجے تک پہنچا جا سکتا ہے اور وہ معیارہے ”مقام شکر” اور ”مقام صبر”کا۔
ہم اپنی مادی خواہشات کے پورا نہ ہونے پر نا شکرے پن کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں کہ شاید کوئی مشرک بھی ایسا نہ کرتا ہو۔ہر دکھ ،ہر آزمائش،ہر تکلیف پر ہم اللہ سبحان تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں ۔شکایتوں کے انبار ایک گٹھڑی کی صورت میں اللہ پاک کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ اے اللہ تو نے ہمارے ساتھ ہی یہ کیوں کیا۔اس وقت ہم تمام عطائوں کو بھول جاتے ہیں یا قصداََ نظر انداز کررہے ہوتے ہیں۔
دل و دماغ پر غم کا غلبہ اس قدر شدید ہوتا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی حس کام کرناچھوڑ چکی ہوتی ہے،تمام دلائل،تمام تاویلوں اور ہزارہا جتن کے باوجود ہم خود کو قائل نہیں کر سکتے۔وہی اللہ کی عبادت جو ہمارے لئے باعث سکون ہوتی ہے دکھ کی گھڑی میں عبادت کی لذت و سرور اور سکون مفقود نظر آنے لگتا ہے۔دعائوں پر سے یقین اٹھ جاتا ہے۔انسان کی زندگی میں کئی بار ایسے موڑ ضرور آتے ہیں جب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری دل سے نکلنے والی دعا بھی بے اثر ہو گئی ہے۔ہماری تمام عبادات اور طویل سجدے بھی اللہ کی رحمت کو ہماری طرف نہیں موڑ پا رہے۔
بلا شبہ کچھ دکھ ایسے ہوتے ہیں جو ہماری زندگی کا ناسور بن جاتے ہیں ۔ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی،ان کا وجود ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتا ہے اور زندگی کے اختتام کے ساتھ ہی ان کا اختتام بھی طے ہوتا ہے۔ایسے موقع پر زندگی صورت گریہ ہو جاتی ہے مگر ذرا سی ہمت باندھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرتے رہنا چاہئے ،دعائوں کا سلسلہ منقطع نہیں کرنا چاہئے۔وہ مالک و مختار ہے،ہر تمنا پوری کرنے پر قادر ہے۔دے دے تو شکر کرنا چاہئے اور نہ دے تو صبر کا دامن تھام لینا چاہئے کیونکہ بحیثیت مخلوق یہی ہمارا فرض ہے ۔
شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ ہمارے دلوں کو کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے،جو ہماری زبان پر سوائے شکوئوں کے کچھ نہیں آنے دیتی۔ہم اللہ کے تمام احسانات کو فراموش کر دیتے ہیں۔اس لئے لازم ہے کہ ہم ”مقام شکر” اور ”مقام صبر”سے آشنائی حاصل کریں۔ہمیں اپنے اعمال کو وہ سمت دینی چاہئے جس پر گامزن رہتے ہوئے ہم اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو سکیں ،ہماری خواہشات ہمارے لئے اہم نہ ہوں بلکہ صرف اللہ کی رضا ہمارا مطمع نظر ہو۔ہم آسائش میں شکر اور آزمائش میں صبر کی عادت کو اپنائیں تو یقیناََاللہ اس سے بھی نوازے گا جو ہماری نظر میں نا ممکن ہے۔
دعائیں قبول نہ ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ( نعوذ باللہ)اللہ کے خزانے میں کچھ کمی ہے بلکہ ہم اس حقیقت سے نظریں چرا رہے ہوتے ہیں کہ دعا قبول نہ ہونے میں ہی ہماری بہتری ہے اور اسی میں اللہ کی رضا۔صرف اللہ کی ذات کو ہی منصف سمجھا جائے اور مکافات عمل پر کامل یقین رکھاجائے تو دلی سکون نا ممکن نہیں کیونکہ مکافات عمل اٹل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں