تعمیراتی صنعت سے وابستہ سرمایہ کاروں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک … وزیر اعظم کے وژن کی راہ میں رکاوٹ کون ہے ؟

پی ٹی آئی حکومت نے ہائوسنگ کے شعبہ کو ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صنعت کا درجہ دیاتاہم تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کو متاثر کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے

ہائوسنگ سکیموں کو جن مسائل کا سامنا ہے ہے ان میں سرفہرست ریگولٹری اتھارٹی والے اداروں کا عدم تعاون اور رویہ ہے،ہائوسنگ ریگولٹری اتھارٹیز میں موجود کرپٹ اہلکاروں کی بلیک میلنگ سرمایہ کاروں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے

راولپنڈی(سی این پی)انسان کیلئے تین چیزیں بنیادی ضرورت میں روز اول سے شامل رہی ہیںان تینوں بنیادی چیزوں کا منبع زمین ہے ، زمین کے سینے سے ہی اناج ملتا ہے ، زمین پر ہی کپاس اگتی ہے اورزمین پر ہی گھر بنتا ہے،یعنی روٹی ،کپڑا اور مکان انسانی بنیادی ضروریات ہیں جنکے بغیر زندگی کا تصور نہیں، انسان ا پنی ابتدائی زندگی میں غاروں میں رہا کرتا تھا اور پھر کچے مکان اور رفتہ رفتہ رہائش کے لیے جدید ترین شکلیں نکل آئی ہیں۔اسی نعرے کو ذوالفقار علی بھٹو نے متعارف کروایا اور پذیرائی پائی ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنا مکان ہر انسان کا خواب ہوتا ہے اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے انسان دستیاب وسائل کے مطابق ہرکوشش کرتا ہے کیونکہ محفوظ رہائش انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ازل سے انسان کو ایسی جگہ کی ضرورت رہی ہے جہاں وہ موسمی اثرات سے محفوظ رہے اور اسے ہر ممکن سہولت اپنے گھر میں میسر ہو تا کہ وہ سکھ چین سے زندگی بسر کر سکے، تعمیراتی کاموں میں سڑکیں، پل، پارک اور ہر قسم کی عمارتوں کی تعمیر شامل ہے مگر اس میں سب سے بڑا حصہ رہائشی مکانوں کی تعمیر ہے۔ ملکی معیشت میں تعمیراتی سرگرمیوں کی بڑی اہمیت ہے پاکستان کی مجموعی معیشت میں تعمیراتی شعبہ کا حصہ 2.5 فی صد ہے اور محنت کشوں کا 7.3 فی صد حصہ اسی شعبہ سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے جسکی شرح 2.7 فی صد ہے اسی تناسب سے ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 4 لاکھ گھروں کی ضرورت ہے جبکہ تعمیراتی گھروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اسی وجہ سے ہر شہر میں کچی آبادیوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جہاں غریب ،کم آمدن والے مجبور افراد غیر انسانی حالات میں رہائش پذیر ہیں،آج معیشت کا انحصار زمین و جائیداد کی خرید و فروخت ،تعمیراتی صنعت اور اس سے منسلک صنعتوں پر ہے ،کیونکہ جب زمین کا لین دین ہوتا ہے اورتعمیراتی صنعت میں تیزی سے کام ہوتا ہے تو معاشی سرگرمیاں بڑھتی ہیںاور چالیس سے ستر دوسری صنعتوں کا پہیہ بھی چلتا ہے تعمیراتی صنعت (رئیل اسٹیٹ )ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکی ہے معاشی سرگرمیوں کے فروغ میں اس کا کلیدی کردارہے ،نوے کی دہائی میں ملک میں ہائوسنگ سوسائٹیز نے جدید رہائش کا فارمولا دیا ،جسے بے حد پذیرائی ملی ،کشادہ اور پختہ سڑکیں ،سیوریج کا بہترین نظام،بجلی ،گیس اور پانی سمیت تمام سہولیات کی دستیابی نے رہائش کے بہتر معیار کو نہ صرف متعارف کروایا بلکہ بہت جلد ہائوسنگ سیکٹر میں جدت نے عوام کو اپنی طرف کھینچا۔جسکے بعد نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا رجحان دیکھنے میں آیا اور آج ہائوسنگ کا کاروبار صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے ۔ وطن عزیز میں شہریوں کو درپیش مسائل میں ایک اہم مسئلہ مکانات کی قلت ہے اور غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ایک کروڑ مزیدگھر بنانے کی اشد ضرورت ہے اس ضمن میں (ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈڈویلپرز )آباد کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی قومی پیداوار جی ڈی پی میں تعمیرات کا حصہ 2.8(دو اعشاریہ آٹھ )فیصدہے جبکہ ملک کی مجموعی افرادی قوت کے سات سے آٹھ فیصد حصے کا روزگار تعمیراتی شعبے سے منسلک ہے۔ اسی طرح چھوٹے اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کے پھلنے پھولنے کا تعلق بھی تعمیراتی شعبہ کی گروتھ(شرح نمو) سے جڑا ہوا ہے۔ ملکی معیشت کی بہتری میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3.5 افراد ایک کمرے میں رہائش پذیرہیں جبکہ عالمی سطح پر یہ تناسب 1.1 ہے ملک کی تقریبا آدھی شہری آبادی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے اور کراچی میں 8 ملین(80لاکھ)جبکہ لاہور کی کچی آبادیوں میں 1.7 ملین(71 لاکھ) افراد رہائش پذیر ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) میں تعمیرات کے شعبہ کا حصہ 2.8 فیصد ہے جبکہ ملک کی مجموعی افرادی قوت کے 7تا 8 فیصد حصے کا روزگار بھی شعبہ سے ہی منسلک ہے،وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئے خصوصی پیکچ دیا گیا تھا اگر اس پر من وعن عملدرآمد ہوتا تو دور س نتائج برآمدہوتے اسکے ساتھ بیروزگاری کے خاتمے کیلئے معاون ثابت ہو تا، معاشی استحکام وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے ،وزیراعظم عمران خان نے 3اپریل 2020کو تعمیراتی شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیتے ہوئے اسے متعدد مراعات کے ساتھ فعال کرنے کا اعلان کیا تھا۔پی ٹی آئی کی حکومت نے ہائوسنگ کے شعبہ کو ملک کی 70 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صنعت کا درجہ دیا ،کثیرالجہتی مقاصد کا حامل یہ منصوبہ بلاشبہ اندرون اور بیرون ملک سرمایہ کاروں کیلئے ایک ایسی ترغیب جسکے فوائد کروڑوں نہیں تو لاکھوں افراد تک پہنچنا تھے ۔ اِن مراعات میں 2020کے دوران سرمایہ کاری کرنے والوں کو ایمنسٹی دیتے ہوئے انکے ذرائع آمدن نہ پوچھنے، فکس ٹیکس عائد کرنے، سیمنٹ اور اسٹیل انڈسٹری کے سوا تمام تعمیراتی شعبوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے، نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں پیسہ لگانے والوں کو 90فیصد ٹیکس چھوٹ دینے، گھر فروخت کرنے والوں سے کیپٹل گین ٹیکس نہ لینے کے اعلانات شامل تھے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کی اہمیت وقت گزرنے کے ساتھ بڑھنی تھی اور اس اسکیم کے فوائد تعمیراتی کمپنیوں، اسٹیٹ ڈویلپرز کے ساتھ ساتھ ریت، بجری، سیمنٹ، سریا، آئرن، خشت، لکڑی، ٹائلز، سینیٹری اور بجلی وغیرہ کے سامان، مزدور، مستری، بڑھئی، الیکٹریشن ، پلمبر، ڈرافٹسمین، انجینئرز اور جملہ ہنرمندوں تک پہنچنا تھے۔ ابھی تک حکومت کو مطلوبہ نتائج کا انتظار ہے جسے ملحوظ رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایمنسٹی اسکیم میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ فکس ٹیکس رجیم میں ایک سال، منصوبوں کے اختتام کی مدت میں 30ستمبر 2023، خریداروں کے لئے ذرائع آمدن بتانے کے حوالے سے 31مارچ 2023تک توسیع کی گئی ۔ تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لئے آمدن کے ذرائع بتانے کے حوالے سے استثنی کی مدت میں 30جون 2021تک توسیع کی گئی ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ 186ارب روپے کے پروجیکٹ ایف بی آر کے پورٹل پر رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، پنجاب میں 163ارب روپے کے تعمیراتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں۔ تعمیراتی شعبے کے فروغ سے پنجاب میں 1500ارب روپے کی اقتصادی سرگرمیاں شروع اور اڑھائی لاکھ فراد کو روزگار ملے گا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی تھی کہ بینک اگلے پانچ سال تک پانچ اور دس مرلے کے گھروں پر پانچ اور سات فیصد سے زائد سود وصول نہ کریں جبکہ چھوٹے گھروں پر سبسڈی دی جائے ۔ بڑے شہروں کے لئے ماسٹر پلان بنانے، سیوریج اور فراہمی آب کے سلسلہ میں حائل رکاوٹوں جیسے مسائل حل کرنے کے اعلانات بھی وزیراعظم نے کئے۔ تعمیراتی صنعت سیاسی صورتحال پر سب سے زیادہ انحصار کرتی ہے۔ سیاسی استحکام، مضبوط معیشت اور امن و امان کی تسلی بخش صورتحال تعمیراتی صنعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا بھر میں گولڈن، فارن کرنسی سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، اس کے برعکس پاکستان میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو زیادہ منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتوں اور عوام کی جانب سے رئیل اسٹیٹ میں خصوصی توجہ دی جاتی ہے،اس لیے تعمیرات کے شعبے میں حکومت کے کردار کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اس جانب خاص توجہ نہیں دی جارہی یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔ڈویلپرزاوربلڈرز نے ہی اس صنعت میں سب سے زیادہ کام کیا اور روزگار کے وسیع مواقع فراہم کئے۔ گورنمنٹ سیکٹر نے تعمیراتی صنعت میں زیادہ کام نہیں کیا۔ حکومت غریب آدمی کے ذاتی گھر کا خواب باآسانی پورا کر سکتی ہے۔ حکومت پرائیویٹ پبلک پارٹیز شپ کے تحت ہائوسنگ ا سکیمیں متعارف کرائے۔ نجی شعبہ کے ساتھ جوائنٹ وینچر کرے، سستی ہائوسنگ اسکیموں کیلئے ملک بھر میں زمین کی کمی نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے بیرون ملک اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب کرے۔ سمندر پار پاکستانیوں کی کثیر تعداد اپنے وطن میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری لانے کیلئے تیار ہیں۔ہائوسنگ سکیموں کو جن مسائل کا سامنا ہے ہے ان میں سرفہرست ریگولٹری اتھارٹی والے اداروں کا عدم تعاون اور رویہ ہے،ہائوسنگ ریگولٹری اتھارٹیز میں موجود کرپٹ اہلکاروں کی بلیک میلنگ سرمایہ کاروں کیلئے سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے ،ان سکیموں میں گیس اور بجلی کی عدم دستیابی، اربن ایریا زمیں کمرشل پالیسی کا فقدان اور دوسری رکاوٹیں شامل ہیں۔ گیس اور بجلی کے نئے کنکشنوں پر پابندی مستقبل کے تعمیراتی منصوبوں پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے،اس لئے ان دونوں شعبوں کے لیے آئوٹ آف باکس حل نکالناضروری تاکہ ملک میں سرمایہ کاری اور روزگار میں اضافہ ہو سکے۔موجودہ حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبہ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دی جانے والی مراعات اور ٹیکسسز میں دی جانے والی رعایات قابل تعریف مگر اس کے ثمرات کو تیز تر کرنے کے لیے ضروری ہے اداروں میں کام کی رفتار کو تیز اور غیر ضروری تاخیر کو ختم کیا جائے،سرمایہ کاری کے فروغ اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے ادارے نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی اور مختلف امور میں ان کے مسائل کو سرعت سے حل کریں۔حکومت کے سامنے مشکل آپشن ہیں لیکن تعمیراتی صنعت کو سہارے کی ضرورت ہے اور چونکہ حکومت حقیقی معنوں میں غریبوں کی مدد کرنا چاہتی ہے ایسے میں یہ کام اس طریقے سے انجام دینا ہوگا کہ تعمیراتی صنعت کو درپیش مسائل اور انکے تدارک کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے ،متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ ہائوسنگ کے شعبے سے وابستہ سرمایہ کاروں کیلئے سہولت کاری کا کردار اداکریں تاکہ نہ صرف سرمایہ کاروں کو تحفظ ملے بلکہ انکی حوصلہ افزائی بھی ہوسکے۔ تعمیراتی صنعت میں سرمایہ کاری کو متاثر کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں