زینہ —-ملیحہ سید

ملیحہ سید
maleehahashmi887@gmail.com

—-مکافات عمل—

مکافاتِ عمل پر یقین رکھنا ہماری سماجی تربیت کا حصہ ہے تاکہ ہم معاشرے میں برائی پھیلانے کا موجب نہ بنیں کہ ہم آج جو بوئیں گے وہی کل کاٹیں گے۔بچپن سے ہمارے بڑے بزرگ ایک بات کثرت سے کرتے آئے ہیں کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

اس طرح کے کئی محاورے سنائے جاتے۔ سمجھائے جاتے۔۔جن کا مقصد نیکی اور بدی کے راستوں میں تمیز کرنے کی کوشش ہوتی تھی۔

مگر کچھ مرد و زن مکافات عمل پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتے۔ بلکہ خواتین اپنے شوہر یا بیٹے کی بد اعمال کو یہ کہہ کر justify کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کو باہر منہ مارنے کی عادت ہے۔

اور جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ کو خوفِ خدا نہیں کہ کل کو آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی کوئی منہ مارے تو۔۔۔۔۔۔ اس موقع پر ان کا جواب ہوتا ہے کہ میرا نصیب بھی میرے رب نے بنایا اور اس کا بھی وہی بنائے گا۔

یعنی آپ اپنے شوہر یا بیٹے کی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتی بلکہ یہ اس سوچ کی حامل خواتین تو ان بے غیرتوں کو اپنی کزنز یا سہیلیاں حتی کہ محلے کی بچیاں بھی پیش کرتی ملتی ہے۔ روز اخبار میں ایک آدھ ایسی خبر ضرور ہوتی ہے کہ ہمسائی نے شوہر کی مدد سے محلے کی فلاں لڑکی اغواء کر لی وغیرہ وغیرہ

دراصل ایسی بے شرم خواتین کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں ان کا اپنا خاندان بھی قبول نہیں کرتا ۔۔ اس لیے یہ ایک بدکردار اور جھوٹے مرد کے ہر فعل کی بلاواسطہ اور بلواسطہ حمایت کرتی ہیں تاکہ ان کا گھر بسا رہے۔ جبکہ یہ آبادی نہیں کہی جا سکتی۔ظالم کا ساتھ دینے والے بھی ظالم ہی کہلائیں گے۔

ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے اخلاقی اور جنسی جرائم اور جنسی آوارگی کی ایک اہم ترین وجہ ایسے مردوں سے وابستہ خواتین کی خاموشی اور خاموش سمجھوتے ہیں۔ اس حوالے سے بات کیجئے۔ ایسی خواتین سے بات کیجئے کہ رزاق اللہ تعالی کی ذات ہے۔ ایسے مرد کی اصلاح کرو نہ کہ اس کا بچہ پر بچہ پیدا کرو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں