مظاہرین نے بحریہ ٹائون کراچی پر ہلہ بول دیا، توڑپھوڑ،املاک نذر آتش

کئی پلازوں کی دکانیں، موٹر سائیکل، گاڑیاں ، کروڑوں کا سامان جل کر خاکستر،بینکوں سے رقوم چوری انتظامیہ اورپولیس غائب
ہم پرامن دھرنا دے رہے تھے اس لیے سندھ ایکشن کمیٹی کا بحریہ ٹائون میں ہونے والے تشدد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں،قادر مگسی
جیسے ہی احتجاج پرتشدد ہوا تو اپنے تمام کارکنان کو واپس بلا لیا توڑپھوڑ سمیت جو کچھ ہوا اس میں ہم شریک نہیں تھے ،حفیظ بلوچ

کراچی(سی این پی )بحریہ ٹائون انتظامیہ کے خاف سندھی قوم پرستوں کا احتجاج ، مشتعل مظاہرین کی توڑپھوڑ،جلائو گھیرائو، بحریہ ٹائون کا مرکزی گیٹ ،کئی گاڑیاں، دکانیں نذر آتش ،نجی بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کو اکھاڑ پھینکا ،تفصیلات کے مطابق بحریہ ٹائون کی جانب سے قدیم گوٹھوں کی زمینیں ہتھیانے پر صوبہ سندھ کی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی نے بحریہ ٹائون انتظامیہ اور معروف بلڈر ملک ریاض کے خلاف مظاہرے کی کال دی ،سندھ ایکشن کمیٹی کی کال پرہزاروں مظاہرین نے سپر ہائی وے کراچی پر احتجاج کرتے ہوئے سپر ہائی وے کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دیا ،کراچی کی سپر ہائی وے پر واقع بحریہ ٹائون کے باہر سندھ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین نے دھرنا دے دیا جو کئی گھنٹے جاری رہا جسکے بعد مشتعل مظاہرین نے بحریہ ٹائون پر ہلہ بول دیا ،مظاہرین گیٹ پر لگے کنٹینرز کو عبور کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ اس دوران مظاہرین نے دکانوں، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں کو آگ بھی لگا دی جبکہ نجی بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کو توڑ کر رقم بھی نکال لی گئی ،سینکڑوں مشتعل مظاہرین نے کئی پلازوں کی دکانوں ، موٹر سائیکل اور گاڑیاں کو آگ لگا دی،آگ لگنے کی وجہ سے کروڑوں کا سامان جل کر خاکستر ہوگیا ہے۔کئی گھنٹے آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے نظر آئے مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ کراچی کی انتظامیہ سمیت بحریہ ٹائون کی فائر بریگیڈ کے عملہ کو سانپ سونگھ گیا ۔نجی املاک راکھ کا ٹھیر بن گئیں مگر کوئی امداد کو نہ پہنچا ۔مشتعل مظاہرین نے کئی گھنٹے بحریہ ٹائون سمیت مکینوں کی املاک کی توڑ پھوڑ کی نذر آتش کیا مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منظر عام پر نظر نہ آئے ،بحریہ ٹائون کے مکین کئی گھنٹوں تک گھروں میں محصور رہے تاجر جان بچانے کی غرض سے دکانیں چھوڑ کر چلے گئے ،بحریہ ٹائون کی سیکورٹی اورپولیس بھی منظر عام سے غائب رہی اوربظاہر یہی نظر آرہا تھاکہ مظاہرین کو فری ہینڈ دیا گیا ہے۔توڑ پھوڑ کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچی اور پولیس نے مظاہرین پر شیلنگ کی جس کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے۔ پولیس نے چندمظاہرین کو حراست میں لے کر متعلقہ تھانے منتقل کیا گیا ہے،یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بحریہ ٹائون کی جانب سے گوٹھوں کی زمینیں ہتھیانے پر صوبے کی قوم پرست جماعتوں کے اتحاد سندھ ایکشن کمیٹی میں قادر مگسی، جلال محمود شاہ، ایاز لطیف پلیجو اور دیگر سندھی قوم پرست رہنما شامل ہیں۔اس سے قبل متعدد مظاہروں کی قیادت کرنے والی سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس نے بھی مظاہرے کی حمایت کی تھی۔سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس کے حفیظ بلوچ کا کہنا تھا کہ جیسے ہی احتجاج پرتشدد ہوگیا تو ہم نے اپنے تمام کارکنان کو واپس بلا لیا تھا اور وہاں جو کچھ ہوا اس میں ہم شریک نہیں تھے البتہ سندھ ایکشن کمیٹی کے ممبر اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ اتحاد گذشتہ 8سالوں سے مقامی لوگوں کی اراضی کو بچانے کے لیے کوشاں ہے۔حفیظ بلوچ کا کہنا ہے کہ بحریہ ٹائون کے افسران اکثر گوٹھوں کو دورہ کرتے ہیں اور وہاں کے رہائشیوں کو جگہ خالی کرنے کا کہتے ہیں۔ افسران اراضی کا متبادل دینے کی بھی پیشکش کرتے ہیں لیکن مقامی لوگ کسی قسم کی پیشکش لینے سے انکاری ہیں۔بحریہ ٹائون انتظامیہ نور محمد گبول گوٹھ، عثمان اللہ رکھیو گوٹھ، ہادی بخش گبول گوٹھ اور عبد اللہ گبول گوٹھ میں اراضی پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔بحریہ ٹائون انکی اراضی کے علاوہ کمال جوکھیو، فیض گبول امیرالدین گبول کے زمینوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ سندھ ایکشن کمیٹی کے قادر مگسی نے کہا ہے کہ تشدد میں ملوث افراد کا مظاہرین سے کوئی لین دین نہیں ہے۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹائون کے اپنے لوگ نے جان بوجھ کر احتجاج کو تشدد کی طرف موڑا۔ ہم پرامن دھرنا دے رہے تھے اس لیے سندھ ایکشن کمیٹی کا بحریہ ٹائون میں ہونے والے تشدد سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔قادر مگسی نے کہا کہ پولیس نے ایک درجن کے قریب مظاہرین کو گرفتار کیا ہے جن کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔واضح رہے کہ مئی 2018 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بحریہ ٹائون کراچی کو غیر قانونی طور پر اراضی دی تھی۔ سندھ حکومت نے ایم ڈی اے کو رہائشی سکیم بنانے کے لیے اراضی الاٹ کی تھی۔عدالت نے بحریہ ٹائون کو ہائوسنگ سکیم میں کوئی پلاٹ یا اپارٹمنٹ بیچنے سے بھی روک دیا تھا لیکن ایم ڈی اے نے پھر بھی بحریہ ٹائون کے ساتھ اراضی کا تبادلہ کیا۔گزشتہ برس 4 مئی کو سپریم کورٹ نے بحریہ ٹائون کراچی کو سرکاری زمین کی الاٹمنٹ اور تبادلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ملک ریاض کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا تھا جبکہ بحریہ ٹائون اراضی سے متعلق کیسز پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے معاملہ نیب کو بھیجنے اور 3 ماہ میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داران کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ بحریہ ٹائون کے ساتھ اراضی کا تبادلہ غیرقانونی ہے۔ اس لیے حکومت کی اراضی حکومت کو واپس کی جائے جبکہ بحریہ ٹائون کی اراضی بحریہ ٹان کو دی جائے۔عدالت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کی گئی کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں