ایمان کی غذا………….پروفیسر ڈاکٹررابعہ تبسم

حمد وثنا کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرنا ایمان کی غذا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کی رغبت و محبت اللہ سے وابستہ ہو جاتی ہے اور دنیا کی تکلیفیں اگر پیش بھی آیئں تو حقیر اور آسان ہو جاتی ہیں۔حمد یعنی تعریف ،احسان اور نیکی کی وجہ سے کی جاتی ہے
حمد میں تین چیزیں شامل ہیں :
پہلی ہے مدح:مثلا جب ہم کہتے ہیں فلاں چشمے کا پانی ٹھنڈا اور میٹھا ہے تو یہ اس کی مدح ہے یعنی یہ اس پانی کی ذاتی صفات ہیں ۔مدح، ستائش(تعریف)کے معنی میں ہے ، جب انسان کسی کمال وجمال اور خوبصورتی کو دیکھتا ہے تو مدح کی حس ردِعمل کے طور پر پیدا ہوتی ہے اور یہ حس فطری اور طبعی ہے،اگر اس موقع پر اس سے پوچھا جائے کہ کیوں مدح کر رہے ہو ، کیا اس مدح کے بدلے میں کچھ ملے گا ؟ تو وہ جواب دے گا ، میں انسان ہوں اور انسان جب کسی عظمت ، جلال، اور کمال کا سامنا کرے تو خضوع کرتا ہے(بدنی انکساری اور تواضع)
دوسری ہے شکر: یہ ایک اور پاکیزہ حس ہے جو انسانی صفات میں سے ہے، شکر اس وقت ہوتا ہے جب کسی کی طرف سے انسان کو کوئی خبر اور نیکی پہنچے، انسان کی انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ شکریہ کا اظہار کرے۔
تیسری چیز ہے عبادت: عبادت کے معنی کسی کی تعظیم کی غرض سے تواضع و انکساری اختیار کرناہے اور یہ صرف اللہ کے لئے ہے۔رب کی تعظیم کے لئے اپنے نفس کے خلاف کام کرنا ، ہر اس امر کو بجا لانا جس سے اللہ راضی ہوتا ہو۔اللہ کے احکامات کی اطاعت و تعمیل کے دائرہ میں فقط بنیادی ارکان نماز ،روزہ، حج،زکا ہی شامل نہیں بلکہ تمام معاملات زندگی کے لئے جو جو احکامات دیئے گئے ہیں ان کی کامل اطاعت و تعمیل بھی عبادت
ذکر کیا ہے
ذکر کا مفہوم :ذکر کے لغوی معنی یاد کرنا، بیان، چرچا، تذکرہ، یادآوری، کسی چیز کو محفوظ کر لینا، حفاظت کرنا۔ ذکر الہی کے مفہوم میں اللہ تعالی کو ہر حال میں یاد رکھنا ، اس کا تصور ہر وقت ذہن میں رکھنا اور اسکی مرضی، پسند ناپسند کا خیال رکھنا ۔اٹھتے بیٹھتے لیٹے اور کھڑے یہ بات ذہن میں رکھنا کہ میرا ایک خالق ہے اور میں نے ایک دن اس کے حضور حاضر ہونا ہے۔ ذکر کا تعلق انسان کے دل اور جذبات سے زیادہ ہے جبکہ تفکرا یک عقلی طریقہ کار ہے۔
اور ہم نے اس ذکر (قرآن)کوآپۖ پر اس لئے نازل کیا تا کہ لوگوں کووہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لئے نازل کی گئی ہیں، شاہد وہ( اِن میں) غور و فکر کریں (سورہ النحل آیت 44)۔
یہ آیت ذکر کے تمام مفاہیم کا احاطہ کرتی ہے ۔ ذکر دراصل قرآن فہمی ہے۔قرآن کے مضامین کو سمجھنا ان پہ غور و فکر کرنا یعنی دل ،جذبات اور عقل کی تربیت قرآن میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں کرنا۔جب تک ہم قرآن سے رشتہ نہیں جوڑیں گے اس وقت تک ہم حمد شکر اور عبادات کے عملی پہلو سے روشناس نہیں ہو سکتے ۔ہم اِیمان کی اصل حقیقت پا ہی نہیں سکتے جب تک قرآن کی تعلیمات کا علم حاصل نہیں کرتے۔ یہ قرآن ہی تو ہیجس کے ذریعے اللہ ہم سے باتیں کرتا ہے۔اور ہم سے پہلے بھی جتنی قوموں پہ کتابیں اتاری گئی ہیں وہ بھی اہلِ ذکر ہیں اور ہم بھی اہلِ ذکر ہیں ہمیں اپنی خوش بختی پہ ناز ہونا چاہئے۔اور ہم کتنے غافل ہیں کہ اپنے مالک کی باتوں پہ کان نہیں دھرتے اس سے باتیں نہیں کرتے نتیجہ کیا ہے روح بے چین،جسم بیمار، در بدر بھٹک رہے ہیں۔
تو پھر کیوں نہ خود بھی خود قرآن سے جڑ جائیں اور اپنے بچوں کو بھی ذکر کا خوگر بنائیں تا کہ روح کو غذا ملے اور ہمارا اِیمان مضبوط ہو۔ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں