پگڈنڈیاں—ایک نئی کہانی—–ڈاکٹر رابعہ تبسّم

ڈاکٹر رابعہ تبسّم
rabiatabassum17@yahoo.com

—-ایک نئی کہانی—–

آئیے! آج آپ کو ایک ایسی کہانی سناتی ہوں جو یقینا آپ کو مایوسیوں بھرے ماحول میں روشنی کی کرن بن کر خوشیوں کی حقیقی وادی میں لے جائے گی، اس امید کے ساتھ کہ شاید معاشرے کے بہت سے سلگتے ہوئے مسائل حل ہو جائیں یا کم از کم کوئی ایک دل ہی اس قربانی پر آمادہ ہو جائے ،مَیں آپ کو ایک شادی ہال میں لیے چلتی ہوں جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کو رخصت کر رہا ہے، مگر ٹھہریے! پہلے اپنے پچپن کا واقعہ جو میرے ذہن کی سکرین پر بالکل ایسے ہی نقش ہے جیسے کل والی رخصتی ، وہ دن ہمارے علاقے کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا جب ہمارے گاؤں کے عقب میں واقع ایمونیشن ڈپو میں بم پھٹا تھا (اب تو یہ قیامتیں ہمارامقدرہوبن کررہ گئی ہیں) آن کی آن میں ہرگاؤں میں دو دو تین تین عورتوں کی مانگ اجڑ گئی تھی، جب ماتم کی دھند چھٹی تو بہت سے مسائل منہ کھولے کھڑے تھے، ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ نوجوان عورتوں کا کیا بنے گا ؟ جن کے بچے ہیں ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ کیا حکومت کی طرف سے ملنے والی امداد مسقبل کے لئے ان کی چھتری بن سکے گی ؟ بلکہ اس کی وجہ سے تو بہت سے جھگڑے ہوئے، یہاں تک کہ ایک شخص قتل بھی ہو گیا ۔ ایسے میں کچھ سمجھ دار والدین سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے نوجوان بیٹوں سے، جو کہ اپنی آنکھوں میں نہ جانے کیا کیا سپنے سجائے بیٹھے تھے، قربانی مانگی، بیٹوں نے بھی سرِ تسلیم خم کر دیا ، جب گاؤں میں بکر بھائی کی اپنی بیوہ بھابھی کے ساتھ شادی کی خبر پھیلی تو ہر کوئی دم بخود تھا، کیونکہ اس کی بھابھی نے اسے اپنے بچوں کے ساتھ پالاتھا یعنی اس کا بڑا بیٹا اور بکر بھائی تقریبا ہم عمر تھے۔ مگر اپنی پھوپھی الٰہی ( اﷲ انھیں جنت نصیب کرے ) کی بات آج بھی اسی طرح یاد ہے جیسے وہ میرے سامنے کھڑی بول رہی ہوں جب لوگوں کی باتوں کے جواب میں انھوں نے کہا تھا، “ان کے والدین نے جو فیصلہ کیا ہے، صحیح کیا ہے” ۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ ان سب نے ایک بھر پور زندگی گزاری ۔ ایک دوسری مثال یوں ہے کہ بھائی داؤد کی جب شادی ہوئی تو ان کی خوبصورت جوڑی کو دیکھ کر سب لوگ خوش ہوتے تھے، جب وہ کام پہ جانے کے لئے نکلتے تو بیوی ان کو گھر کے دروازے پہ کھڑی ہو کر رخصت کرتی اور وہ یوں لہکتے ہوئے چلتے جیسے سارے جہان کی خوشیاں ان کے ہم قدم ہوں ۔ پھر رب کا فیصلہ آ گیا اور شادی کے چند مہینوں بعد وہ بھی اسی دھماکے کی نظر ہو گئے ، ان کی بیوہ ماں جس نے ابھی سکھ کی سانس بھی نہیں لی تھی اور وہ چھوٹے بہن بھائی جن کی چنگیر میں ابھی ابھی تو روٹی ڈلنی شروع ہوئی تھی کیونکہ بھائی مزدوری کرنے لگ گیا تھا ، اور وہ جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری تھی اس پر کیا گزری؟ وہ اپنی جگہ ایک درد ناک کہانی ہے۔ پھر وہ مہندی بھی چھوٹے دیور کے نام کر دی گئی دونوں نے آج تک نبھائی۔ عورتوں کو سر کی چادر مل گئی بچوں کو باپ اور باپ کو دنیا اور آخرت دونوں۔
اب کہانی کے شروع کی طرف آتے ہیں، جب مَیں نے اسے دیکھا تھا تو وہ ایک کھلنڈرا سا لڑکا تھا، جس کے چہرے پر مسکراہٹ اور باتوں میں قہقہے تھے ، اس کے انگ انگ سے خوشیاں ٹپکتی تھیں، کیونکہ وہ دور دراز گاؤں سے جیو فزکس میں ایم ایس سی کرنے آیا تھا جس کے لیے اس نے قائداعظم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا تھا، ایم ایس سی کرنے کے بعد اسے اچھی ملازمت بھی مِل گئی تھی۔ یقیناً اب گھر بسانے کے سپنے پورے کرنے کا وقت تھا،مگر یہ سب کچھ قدرت کے اختیار میں ہوتا ہے ۔بڑا بھائی دو معصوم بچوں کو بلکتا چھوڑکر اچانک سفرآخرت پر روانہ ہو گیا ۔ یہاں بھی نوجوان نے بڑوں کے فیصلے پر سر جھکادیا،بھائی کی بیوہ سے نکاح کر لیا، خاموشی سے بیوی بچوں کو ساتھ لیا اور اسلام آباد آ گیا ، اللہ نے دو بچے اپنے بھی دے دیئے، بچو ں کی بہترین تعلیم و تربیت کی، بیوی کو رانی بنا کے رکھا، اب اس کے گھر میں بہت سے قہقے گونجتے ہیں، کوئی انجان شخص ان کے رشتے کو جج نہیں کر سکتا ،بیٹے کی شادی پہلے کی، شاندار گھر بنا کے ساتھ رکھا اور آج جب وہ بیٹی کا بازو پکڑ کے رخصت کر رہا تھا تومَیں سوچ رہی تھی کہ جب نکاح نامے پر لوگوں نے باپ کے نام کے خانے میں نذیر احمد کی بجا ئے محمد یوسف دیکھا ہو گا تو انھیں کتنی حیرت ہوئی ہو گی۔ جیتے رہو نذیر یوں ہی خوش رہو آمین۔
ایسی ہی ایک قربانی اُس جنتی عورت حنیفہ نسیم نے بھی دی تھی جس کی وجہ سے آج میں ماں کے رتبے پر فائز ہوں ۔بیس سال تک بے اولادی کا دکھ سہنے کے بعد اُس نے اپنے خاوند کو میرے ساتھ شیئر کر لیا ،اللہ نے جب پہلا بیٹا دیا تو میری ماں نے اُس کی گود میں ڈال دیااور اُس نے زندگی بھر میرے بچوں کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا اور یہی نہیں اُس کے سارے خاندان نے میری عزت اپنی بہن کی طرح کی،آج وہ اس دنیا میں نہیں ہے مگر ہمارے تعلقات اُسی طرح برقرار ہیں۔لوگ سوالیہ انداز سے مجھ سے پُوچھا کرتے تھے، ” اچھا وہ آپ کے ساتھ ہی رہتی ہیں ؟” تو میں حیرت سے جواب دیتی، ” تو وہ کہاں جائیں ؟ یہ بچے اور گھر انہی کا تو ہے اگر اللہ مجھے بھی نہ دیتا تو میں کیا کر سکتی تھی؟” ۔بچے آج بھی اُن کی برسی مناتے ہیں اور اُن کی قبر پہ جا کے روتے ہیں۔انہوں نے مجھے گھر گرہستی سکھائی، میرا ہر دکھ سکھ بانٹا،۔ اُن کے بغیر میں آج بھی اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہوں،آخری دنوں میں جب وہ بول بھی نہیں سکتی تھیں اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایااور اپنی تمام چیزیں بچوں میں بانٹ دیں۔مَیں نے پوچھا ! مجھ سے راضی ہو ؟ اپنا ہاتھ سینے پہ رکھا اور پھر آسمان کی طرف اُٹھایااورپھر مجھے اکیلا چھوڑکر چلی گئی۔
تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سنتِ نبوی پہ صحیح معنوں میں عمل کیاباقی سب باتیں ہیں،کیونکہ یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے، وہ بچے جن کے والدین دنیا سے چلے جاتے ہیں وہ اپنے ہی عزیزوں کے ہاتھوں طرح طرح کے مصائب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور سوتیلی ماں تو ظلم کا استعارہ کہلاتی ہے،جبکہ دو بیویاں سو ، “کانوں” والی کہلاتی ہیں۔ہمیں اُن نئی کہانیوں کو اُجاگر کرنا چاہیے جو لوگوں میں اُمید اور محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوں۔

7 تبصرے “پگڈنڈیاں—ایک نئی کہانی—–ڈاکٹر رابعہ تبسّم

  1. یہ کہانی زندگی کی روانی کی انمٹ مثال ہے ۔ایسی قربانیاں زندگی کو نیا جنم دیتی ہیں زندگی جو اللہ ربّ العزت کا بہترین تحفہ ہے اسکو جلا بخشتی ہیں ۔محبت اور اخلاص کے نئے پہلو اجاگر کرتیں ہیں مایوسی سے امید کا یہ سفر بہت متاثر کن تحریر کی صورت میں پیش کیا گیا ہے مختلف واقعات کو ایک احساس سے اجاگر کیا گیا ہے قربانی۔۔۔۔اللہ کو پسند ہے قربانی

    1. کچھ رشتوں کا نام ہی منفی جذ بات سے وا بستہ ہو جاتا ہے۰ان پیچدہ اور منفی رشتوں کو سا دگی،روانی اور انتہائی مثبت انداز میں بیان کرتی تحریر

  2. اس طرح قربانی اور دل برا کرنے والےبہت کم لوگ ہوتے ہیں اور دونون طرف سے قربانی
    کی کاج نبہا ی آپ نے بی اور ایک دنیا اس کی گواہ ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں