حکومت اور دھرنا——پروفیسر یحیٰ خالد

پروفیسر یحیٰ خالد
yahyakhalid42@gmail.com

حکومت اور دھرنا

یوں تو دھرنا جماعت اسلامی کی ایجاد ہے مگر اس کو عروج تک جناب عمران خان نے پہنچایا۔عمران خان کو انتخابات پر اعتراض تھا اور اُن کا خیال یہ تھا کہ حکومت چار حلقوں کو کھولے تاکہ پتہ چل سکے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔ اگر بات کو معقول مان بھی لیا جائے تو حکومت اس کا صحیح فورم نہیں تھا۔ اس لئے کہ انتخابات کے متعلق اگر کسی نے جواب دہی کرنی ہے تو اُس کاصحیح فورم الیکشن کمیشن ہے۔ اس لئے کہ انتخابات کا سارا ریکارڈ تو اُن کی تحویل میں ہوتا ہے اور اگر کوئی سپریم کورٹ میں بھی رٹ کرتا ہے تو وہ الیکشن کمیشن سے ہی جواب مانگتی ہے۔ تاہم جو بھی ہو جناب عمران خان نے اس کے خلاف مارچ کیا اور اُن کے ساتھ جناب طاہر القادری صاحب بھی ہم رکاب ہو گئے۔ اور یہ جلوس لاہور سے نکلا اور اسلام آباد پہنچ گیا ۔اسلام آباد میں وہ ایک میدان میں جمع ہو گئے۔ دو چا ر دن تو وہاں رہے اور اس کے بعد اچانک ہی وہ ریڈ زون کی جانب چل دیئے ۔ ان کو اس دوران کسی نے بھی روکا ٹوکا نہیں ۔ ریڈ زون میں انہوں نے جم کے دھرنا دیا اور اس دوران انہوں نے جو کچھ بھی لا قانونی کام ہو سکتا تھا کیا ۔ قومی اسمبلی کی عمارت پر حملہ کیا ، پاکستان ٹیلی ویژن سٹیشن پر حملہ آور ہوئے اور جتنا کچھ ہو سکتا تھا توڑ پھوڑ کی۔ نجی ٹیلیویژن چینل جیو کے دفتر پر پتھر برسائے۔ وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی اگر کہیں پولیس نے ان کے کارکنوں کو پکڑا تو اُن کو بھی زبردستی تھانوں سے چھڑا کر لے آئے۔ دریں اثنا کوئی پولیس والا بھی اگر ہتھے چڑھا تواُس کی بھی درگت بنائی۔ دیکھا جائے تو پورے ایک سو چھبیس دن اپنا کام جاری رکھا ۔ اس دوران کفن دفن کا بھی سامان ہوتا رہا اور باقاعدہ قبریں کھودی گئیں اور کفن پوشیا ں ہوئیں۔ ادھر یہ دن حکومت کیلئے بھی سختی کے دن تھے کہ روزانہ پورے ملک کے بڑے شہروں میں دہشت گردوں کی جانب سے دھماکے ہو رہے تھے۔ نہ مسجدوں کو بخشا جا رہا تھا اور نہ ہی کلیسا بچے ہوئے تھے۔نہ پولیس بچی تھی اور نہ فوج جہاں ہاتھ پڑتا دہشت گرد اپنا کام کر جاتے۔ جب دہشت گردوں نے دیکھا کہ حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے تو انہوں نے مزید دلیری دکھائی اور دن کی روشنی میں پشاور کے بچوں کے سکول پر حملہ کیا اور معصوم بچوں کو اور اُن کی استانیوں کو نشانہ بنا یا ۔ یہ ایک بہت ہی بڑی بات تھی جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور اس کے نتیجے میں عمران خان اور طاہر القادری نے یہ دھرنا ختم کر دیا اور حکومت یک سو ہو کر دہشت گردوں کے پیچھے پڑ گئی اور قبائلی علاقے میں آپریشن کیا ۔ جس کی مخالفت عمران خان نے بڑھ چڑھ کر کی ۔ مگر اب پانی سر سے گزر چلا تھا اس لئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا حکومت کی ترجیح ہو گئی۔ہم نے دیکھا کہ جس طرح میران شاہ کی ایک جامع مسجد کے تہہ خانوں میں ایک بہت بڑی دہشت گردی کا ٹریننگ سنٹر پکڑا گیا اور اُس کو ختم کیا گیا ۔ اس کے بعد پورے زور شور سے دہشت گردوں کو تباہ کیا گیا ۔ بہت سے افغانستان بھاگ گئے او ر وہاں سے پاکستان میں آپریشن کرنے لگے مگر اب چونکہ اند ر سے حملے ختم کر دیئے گئے تھے اس لے باہر سے آنیوالوں کو جلد ہی ختم کر دیا گیا ۔ دہشت دگردی ختم ہوئی تو ن لیگ کی حکومت کا وقت بھی ختم ہو گیا اور اور نئے انتخابات میں عمران خان کو دھرنے کاصلہ ملا اور انہوں کچھ سیٹوں کی زیادتی سے ایک حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کر لی مگرپھر بھی اُسے دیگرپارٹیوں کی شراکت کی ضرورت پڑ گئی۔ اس میں جناب جہانگیر ترین کے جہازاور پیسے نے بڑا کام دکھایا اور پنجاب جہاں مسلم لیگ ن کی اکثریت تھی اُسے جہانگیر ترین کے جہاز نے اقلیت میں بدل دیا ۔ اور مرکز میں اور پنجاب میں ایک مخلوط حکومت قائم ہو گئی جسے پہلے دن ہی چیلنج کا سامنا ہے۔مسلم لیگ ن، پی پی پی ۔ جمیعت اسلام (ف)اور نیشنل عوامی پارٹی نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردے دیااور اس کے خلاف میدان میں نکل آئے۔ جمیعت کا خیال تھا کہ اس دھاندلی زدہ اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہیئے اور اس کے خلاف تحریک شروع کرنی چاہیئے مگر پی پی پی نے فیصلہ کیا کہ اسمبلی میں بیٹھ کر اس دھاندلی کا مقابلہ کیا جائے انہوں نے مسلم لیگ ن کو بھی منوا لیا کہ اسمبلی میں ضرور بیٹھنا چاہیئے اور اندر بیٹھ کر اس دھاندلی کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔ چنانچہ اس پر مولانا صاحب بھی مان گئے ۔ مگر جس طرح اسمبلی کو چلایا گیا جس طرح اسے ایک عضو بے کار سمجھ کر ساری قانون سازی آرڈیننسوں کے ذریعے کی جا رہی ہے ۔ اور وزیر اعظم نے جس طرح اسمبلی کو نظر انداز کیا اور جس طرح ملک کے حالات بنا دیئے گئے ہیں اور جس طرح زمام حکومت غیر منتخب لوگوں کے حوالے کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بے تحاشہ طریقے سے کم ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں پوراملک مہنگائی کے طوفان میں گھر گیا ہے اورجس طرح روز مرہ کی اشیائے صرف کی اور دوائیوں کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے وہ عوام کی قوت خرید سے نکل گئی ہیں ۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اوپر سے حکام عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ایک وقت روٹی کھائیں۔ اور جس سے اب ساری پارٹیوں نے حکومت کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ۔جس میں جمیعت پیش پیش ہے ۔ دھرنا تو خیر ہو گا سو ہو گا اب تو حکومت اور حزب ِ اختلاف ایک دوسرے سے مقابلے میں آ گئے ہیں اور حکومت نے حزب اختلاف سے مقابلہ کرنے کے لئے جوڈو کراٹے کی ٹیمیں تیار کر لی ہیں اس سے لگتا ہے کہ اب اس ملک میں انارکی ہی پھیلے گی۔ دھرنا یا احتجاج جمہوری حکومتوں میں لوگوں کا حق ہوتا ہے اور اس کو حکومتیں حکمت عملی سے روکا کرتی ہیں مگر جس قسم کی ہٹ دھرم حکومت ہے اس سے اندازہ وہ ہوتا ہے کہ ملک افراتفری کی سمت رواںدواں ہے ۔ جب کہ مسائل کا ایک طوفان ہے کہ جس کا اس حکومت کو سامنا ہے ۔ بجائے اس کے کہ کوئی حکمت عملی اپنائی جائے حکومت خود ہی حزب اختلاف بنتی جا رہی ہے جس کا نتیجہ بے حد خطر ناک ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں