خیال– برابری—سبطر ہاشمی

سبطر ہاشمی

—برابری—

بیٹی پیدا ہوتو بوجھ، بیٹا پیداہوتو کندھا، یہی وجہ ہے کہ دونوں کی پیدائش پر تاثرات مختلف ملتے ہیں، تعصب کہنا چاہیں تو رکئیے، ذرا تعصب کی عینک اتار کر دیکھئیے تو معلوم چلے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔
ایک لڑکا جب پیدا ہوتا ہے تو والدین کو دلاسہ ہوتا ہے کہ یہ ان کے بڑھاپے میں سہارا بنے گا۔ خوشی بھی اسی لئے، اور مٹھائی بھی اسی بات کی۔ سوچئیے، یہ سوچ کا نیا زاویہ ہے، کیا یہ تعصب نہیں؟ ایک شخص جو ابھی پیدا ہوا ہے اس سے پوچھے بنا اس پر تمام بوجھ ڈال دیا جائے؟
تعصب کی عینک سے اس وقتی صدمہ ضرور نظر آتا ہے، جس میں ایک بیٹی کے پیدا ہونے پر افسوس کرلیا گیا ہو، لیکن بیٹا تو پھر چل سو چل سولی
پیدائش سے بڑا آدمی کی لگن لئے جو بڑا آدمی بننے کے خواب دیکھتا ہے، وہ مجبورا ذمہ داری اٹھانے کے لئے ریڑھی بھی لگا لیتا ہے، آسمان سے اونچا اڑنے کی امید لئے پروان چڑھنے والا نوکری نہ ملنے پر خاک چھانتا ہے۔
طعنے تشنے الگ، کچھ کمانا لازمی، کچھ بچانا لازمی، اس کی زندگی پھر اس کی نہیں رہتی۔ جس کی پیدائش سے پہلے ہی اس کے مرنے تک کی پلاننگ کرلی گئی ہو، اس کے حصے کے خواب دیکھ لئے گئے ہوں، اس کی اپنی زندگی کیا ہے، یہاں مغرب کے معاشرے کی مثالیں دینے والے بھی کم نہیں، مغرب میں میاں، بیوی، بچے، کوئی کسی کا بوجھ حد سے زیادہ نہیں اٹھاتا، میاں بیوی دونوں پہیے بن کر زندگی کی گاڑی کھینچتے ہیں، اور یہاں تو سائیکل ہی ایک پہیے والی ہے۔
جہیز خوری لعنت ہے، جہیز مانگنا جرم تو لڑکے کے نسب، کردار اور ایمان کے بجائے جیب اور مالی حیثیت دیکھنا حق سمجھا جاتا ہے۔ جہیز کی مانگ تانگ نے جہاں کئی لڑکیوں کو شادی کے انتظار میں بوڑھا کردیا ہے، وہاں کمزور مالی حیثیت نے بھی کئی کنوارے لڑکوں کی کمریں جھکا دی ہیں۔
دس دہائیوں سے زیادہ ہوئے، خواتین کے حقوق کے لئے آوازیں اٹھ رہیں، لیکن مردوں کے حقوق کے لئے تو آواز بھی نہیں اٹھائی جاتی، کیونکہ اس معاشرے میں رائج ہے کلیہ ،،، کہ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ ایک طرف بوجھ لاد کر، زندگی اور خوابوں سے دور کرکے، رونے کی آزادی بھی نہیں ۔ مردانہ صفات میں رونا شامل ہی نہیں، اور اس انا کو سنبھالتے، پروان چڑھاتے ہی کئی انسان فرعون بن جاتے ہیں، اور پھر کوئی معصوم عورت ہی نہیں کئی دیگر بھی اس فرعونیت کا شکار ہوتے ہیں، انا کے بت معاشرے نے ہر گھر، ہر دل میں قید کررکھے ہیں۔ ان بتوں سے چھٹکارا ہی تو حاصل کرنا مقصد ہے۔
رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم نے کعبے میں رکھے بت ہی نہیں توڑے، دلوں میں انا کے بت بھی پاش پاش کردئیے۔ لڑکی والوں پر بوجھ ڈالنے سے روکا تو نکاح کے لئے مالی حیثیت میں بڑھاؤ کے بجائے ایمان اور کردار کو فوقیت دی ہے۔ معاشرتی ناہمواری نے جو گھاؤ دئیے ہیں وہ کئی نسلوں تک گہرے ہیں۔ رسم رواج اور ذات، برادری سمیت کتنے ہی بہانے تان رکھے ہیں۔ جو آئندہ نسلوں کا سانس لینا محال کررہے ہیں۔ معاشرے کو ہموار کرنے کے لئے مذہب کا راستہ اپناناہوگا۔ اور اگر مذہب کو اپنا کر آئندہ نسلوں کا بھلا نہیں کرسکتے تو آپ کا مقدر وہی ہے جو آج اہل مغرب کا طرز عمل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں