میڈیکل کالجز میں داخلوں کے لیے چور دروازے ——– رانا سعید دوشی

پاکستان بھر میں ہمیشہ سے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے طلبہ اور طالبات کے داخلہ کے لیے ان کا 12 سالہ ریکارڈ دیکھ کر داخلہ دینے کا اصول رائج تھا۔ مگر بعد ازاں اسے تبدیل کر دیا گیا۔۔ بنیاد یہ بنائی گئی کہ طلبہ میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانات میں غیر قانونی حربے استعمال کر کے نمبر لے لیتے ہیں اس لیے ان کاداخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ بھی ہونا چاہئے۔۔۔ عرض یہ ہے کہ ہمارے پاس صوبائی بورڈ اور وفاقی بورڈ آج تک دوسرے تمام اداروں کی نسبت زیادہ معتبر ٹھہرے ہیں، اگر ان کی کارکردگی میں کوئی شک ہے توکسی ثبوت کے ساتھ ان کو ختم کردیں ، طلبہ اور طالبات کو کس قسم کے عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے؟
انٹری ٹیسٹ کے لیے عجیب بات دیکھئے: صوبائی بورڈ کا سلیبس اور ہے وفاقی بورڈ کا سلیبس اورہے۔۔۔۔ پنجاب میں فیڈرل بورڈ سے ایف ایس سی کرنے والے طلبہ اور طالبات کے لیے بھی پنجاب بورڈ کے سلیبس سے انٹری ٹیسٹ کا کیا جواز ہے؟ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ انٹری ٹیسٹ کا ہی کیا جواز ہے؟ جب صوبائی یا فیڈرل بورڈ طلبہ کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ اس کے حاصل کردہ نمبروں سے کر دیتا ہے۔۔۔ کیا اس پر اعتبار نہیں؟ اگر بورڈ پر اعتبار نہیں تو انٹری ٹیسٹ لینے والے اداروں کی پارسائی کی ضمانت کون دے سکتا ہے؟ خالی پیپرز پر درست جواب کے دائرے میں ببل بنا کر طالب علم اور طالبات آ جاتے ہیں،باقی کو خالی چھوڑ دیتے ہیںاور بعد میں پیپر چیک کرنے والا بڑی آسانی سے درست جواب پر ببل بنا کر اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کر سکتا ہے۔جس طالب علم یا طالبہ کو انٹری ٹیسٹ میں جتنے نمبرزکی ضرورت ہوتی ہے اس کے مطابق نمبر دینے پر قادر ہے، تو کیا یہ نظام شفاف ہے؟ انٹری ٹیسٹ کے پیپر کو تو ہینڈ رائٹنگ کے فرق کے ساتھ بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔۔۔امیدوار خالی پیپر دے کر آ جائے اور یہ لوگ اپنی مرضی سے اس کے پیپر پر ببل بنائیں اور اسے جتنے چاہے نمبر دے دیں یا ٹاپ بھی کروا دیں ۔ایف ایس سی اور میٹرک کے نمبرز کی کیا حیثیت؟ پورے 50 فی صد نمبر تو انٹری ٹیسٹ میں آگئے۔۔۔ باقی ایف ایس سی کی شرح۔۔۔ایف ایس سی اور میٹرک کے پچاس فی صد نمبر بہت کم بھی ہوں تو انٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر اسے داخلہ مل جائے گا۔ اور وہ امیدوار جو بچپن سے ذہن بنا کر محنت کرتے ہوئے میٹرک اور ایف ایس سی میں اچھے نمبر لیتے ہیں ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ وہ خودکشی تک کر جاتے ہیں۔۔ آپ خود سوچیں، کہ بارہ سال کی محنت کے نمبر پچاس فی صد اورڈھائی گھنٹے کی محنت کے نمبر پچاس فی صد،یہ کون سا طریقہ ہے ان کی صلاحیت کو پرکھنے کا؟ خدا کے لیے اس معاملے پر غور فرمائیں اور اس سلسلے میں کھولے گئے چور دروازے بند کئے جائیں تاکہ مستحق لوگوں کو داخلے مل سکیں۔ میری حکام بالا سے کزارش ہے کہ ایف ایم ڈی سی، ۔۔ یو ایچ ایس۔۔۔ نمز۔۔۔ ان اداروں کی کھینچا تانی میں بچوں کے مستقبل کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے خدا را اسے بند کروایا جائے اور داخلوں کے لیے صاف اور شفاف نظام کو اپنایا جائے جو کہ بہت عرصہ پہلے موجود تھا۔ اگر پھر بھی یہ سمجھتے ہیںانٹری ٹیسٹ ناگزیر ہے تو اس انٹری ٹیسٹ کو محض پاس کرنے کی شرط بھی تو عائد کی جاسکتی ہے مگر اس کے 50 فی صد نمبرز کو ایگریگیٹ میں شامل کرنا نا انصافی ہے۔
دوسری بات یہ کہ کتنا طویل عرصہ گزر گیا نہ تو پبلک سیکٹر کے میڈیکل کالجزیا یونیورسٹیز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور نہ ہی سیٹیں بڑھائی گئیں، نوے فی صد اور چھیانوے فی صد نمبر لے کر بھی امیدوار داخلے سے محروم ہیں۔۔ یہ ہونہار طلبہ اور طالبات خود کشی نہ کریں تو کیا کریں۔ کون سا راستہ چھوڑا گیا ہے ان کے لیے۔ پرائیوٹ کالجز کی بھر مار ہے جس میں اس قدر زیادہ فیسیں کہ عام آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان پرائیوٹ کالجز کے مالکان اوپر والوں کا پیٹ بھرتے ہیں اور ان کی ہر سال چاندی ہو جاتی ہے۔ اور ہمارے وہ ہونہار طلبہ اور طالبات ضائع ہو جاتے ہیں ۔ خدا کے لیے اس نظام کو شفاف بنانے کے لیے صوبائی بورڈ اور وفاقی بورڈ کے نتائج کو ہی معتبر سمجھا جائے اگر ان کی کارکردگی پر شک ہے تو ختم کریں ان کو۔۔۔۔ طلبہ اور طالبات کے مستقبال سے بلکہ ان کی جانوں سے کیوں کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس پبلک سیکٹر میں اگر زیادہ میڈیکل کالجز یا یونیورسٹیز موجود نہیں ہیں تو اس کمی کو پورا کرنے کے لیے شام کی کلاسز کا اجرابھی تو کیا جاسکتا ہے۔ میری حکام بالا سے گزارش ہے ان تمام باتوں پر غور کے کوئی پالیسی بنائی جائے جس سے حق دار کو حق ملے ورنہ لمبے ہاتھوں والوں کی لوٹ کھسوٹ اسی طرح جاری رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں