احتجاج احتجاج——حفصہ اکبرعلی

1931 میں یوکرین کے کسانوں نے سویت یونین کے صدر جوزف اسٹالن کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ سٹالن نے نئے قوانین متعارف کروائے تھے جس میں کسانوں کے اراضی کی ملکیت کے حقوق سبو تاژ ہورہے تھے۔ تقریباً ایک سال ہنگامہ آرائیاں جاری رہیں۔ سٹالن نے بھی ایک ڈکٹیٹر ہونے کا خوب ثبوت دیا اور سخت سے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ کسانوں کو لاٹھی چارج سے لے کر قید اور قتل تک کی سزائیں سنائی گئیں۔ نتیجتا 1932-33 میں بدحال قحط آیا جسے تاریخ میں دہشت گرد قحط اور ہولو ڈؤمر کے نام سے جانا جاتا ہے اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بھوک اور افلاس سے مرگئے ـ پچھلے سال ہندوستان میں مودی حکومت کی خلاف کسانوں نے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ کسان مخالف قوانین کو فی الفور معطل اور کالعدم کیا جائے بالاخر مودی نے سنگینی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے تینوں آرڈیننس واپس لے لیے اور یوں ہندوستان یوکرین جیسے قحط سے بچ گیا اس سال پاکستان میں سیلاب سے کئی فصیلیں تباہ ہوئیں مہنگائی نے غریب کی کمر توڑدی جبکہ مہنگائی کی شرح %23 اور مئی میں 42 سال کی سب سے زیادہ شرح ریکارڈ کی گئی۔ روپے کی قدر کے گرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ایسے میں کسانوں نے بجلی کی قیمت میں خصوصی رعایت اور ٹیوب ویل الیکٹری سٹی ٹیرف جو کہ 53 فیصد پر یونٹ تھا کے خلاف احتجاج کیا کسان اتحاد ریڈزون میں داخل ہوا ،ادھر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے اپنی روایتی شدت پسندی کا مظاہرہ کیا اور جارحانہ رویہ اختیار کیا لیکن بہرحال ایک جمہوری حکومت کو غریبوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ غریب کو اپنا حق لینے کے لئے اتنی جدوجہد کیوں کرنی پڑتی ہے۔ ادھر خیبرپختونخوا میں قوم کے محسن اساتذہ پر لاٹھی چارج کیا جا رہا ہے۔ ان کے نصیب میں پولیس کے آنسو گیس اور جوتے کیوں لکھ دئیے گئے ہیں۔ کل ایک استاد کی قمیض پر جوتے کا نشان دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا۔ کیا جو کچھ جوزف اسٹالن نے کسانوں کے ساتھ کیا تھا وہی کچھ خیبرپختونخوا میں اساتذہ کے ساتھ کیا جائے گا ۔تو پھر یاد رکھیں اس کے بعد پوری ریاست کو گندم کا قحط بھگتنا پڑا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ اس ملک کو تعلیم کا قحط علم و ادب کا قحط بھگتنا پڑے۔ روٹی نہ ملے تو انسان صرف جان سے جاتا ہے۔کیکن اگر علم وشعور نہ ملے تو نسلیں انسانیت، روحانیت سے محروم ہو جاتی ہے۔ اور خدا نہ کرے کہ اس قوم کو علم کی دولت سے محروم ہونا پڑے۔ یہ بات جلی حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ جب تک اس ملک میں استاد علاقے کے تھانے دار سے زیادہ قابل توقیر اور امپاور نہیں ہوگا یہ قوم کبھی علم کے جوھر سے آراستہ نہیں ہوسکتی۔ مگر بات صرف اتنی سی ہے کہ چاہے استاد ہو، کسان ہو یا مزدور ہو ان کا معاشرے میں مقام ایک سا رکھا گیا اور جہالت کرپشن زدہ رہنماؤں کی گاڑیوں کے آس پاس دھکے کھا کر سیلفیاں لے کر رقص کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں