پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت شروع، آج فیصلہ سنائے جانے کا امکان

اسلام آباد (سی این پی) سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت شروع ہوگئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کر رہا ہے جو براہ راست نشر ہو رہی ہے۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے آج فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اب تک 4، اور لارجر بینچ 5 سماعتیں کرچکا ہے، لارجر بینچ نے 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔

آج کی سماعت کا آغاز اٹارنی جنرل منصور عثمان کے دلائل سے ہوا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو کہا جا چکا اس کو نہیں دہراؤں گا، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، 1956ء کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟۔اٹارمی جنرل نے کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے، آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اگر 1973ء کے بعد سے آرٹیکل 191 کے تحت کچھ نہیں کیا تو اس کا ایک اور مطلب بھی تھا، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ نے تسلیم کیا آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں لفظ لاء دو سو سے زیادہ بار آیا ہے، آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا، یہ ون سائز فٹ آل والا معاملہ نہیں ہے، جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا کیوں ہے؟، یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا؟، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لا کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹو لاء لکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیوں نہیں کہتے آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟، عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی اور وائس چیئرمین پاکستان بار کے ایکٹ کے حق میں دلائل مکمل کیے گئے تھے۔ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے ایکٹ کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی۔ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس، اور بینچ تشکیل کا اختیار 3 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے، کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے اور درخواستیں لینے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ متاثرہ فریق کو ایک ماہ میں اپیل کا حق، وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے جبکہ ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں