مئورثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے

فروری 2024ئ کے جنرل انتخابات اور اپریل کے ضمنی انتخاب میں بھی وہی ہوا جو برسوں اس وطن میں ہوتا آیا ہے۔ پاکستان میں کئی پارٹیوں کے ہاں مورثی سیاست کا رواج عام ہے کچھ میں نہیں بھی ہے جیسا کہ جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم ۔ کچھ عرصہ تک تحریک انصاف مورثی سیاست سے دور رہی تاہم اب وہ بھی پاکستان کی روائتی سیاسی رنگ میں رنگے گئے ہیں اور یہاں بھی مورثی سیاست بالاخر شروع ہوچکی ہے۔ قیدی نمبر 804 سیاست دانوں کو مختلف ناموں سے پکارنے والے کو بھی مسٹر یو ٹرن کا خطاب مل چکاہے۔ تحریک انصاف کے بانی چئیرمین سے دیگر رہنمائوں کی کئی باتیں بالکل پاکستان کے پرانے سیاست دانوں کی طرح ہیں کہ ان کے بھی قول وفعل میں کھلا تضادبھی ویسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مئورثی سیاست کے حق میں نہیں اوروہ بے نظیر بھٹواور زرداری کے بلاول ‘ اسفندیار ولی کے ایمل ولی‘چوہدری برادران کے مونس الہیٰ‘ شہباز شریف کے حمزہ شریف اور اب میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم کی طرح ان کا خاندان سیاست میں نہیں آئے گا۔ان کے بچے سیاست سے دور رہیں گے ۔لیکن ماضی قریب میں ان کی بیگم ثانی (ریحام خان) نہ صرف خود جلسوں میں جاتی رہیں۔ وہ سلسلہ تو طلاق کے بعد بند ہوگیا تاہم قیدی نمبر 804کے قید میں ہونے کی وجہ سے ان کے نامزد کردہ صدر اور جنرل سیکریٹری مورثی سیاست کو پروان چڑھانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔  2007کے آخر میںشہید بے نظیر بھٹو نے اپنےسیاسی جانشین اپنے بیٹے بلاول زرداری کو قرار دے گیا تھا۔ اس طرح ماضی قریب اور حال کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ جن میں سیاست دانوں نے اپنے جانشین کے طور پر اپنے بیٹے یا پوتوں کی بجائے اپنی بیٹیو ں اور ان کی اولادوں کو اپنا سیاسی جانشین بنایا، گو کہ ان کی بیٹیاں یا ان کی آگے اولادیں اس لیڈر کے خاندان میں کسی قسم کی وراثت کے حقدار تو نہیں مگر ان کی سیاسی ساکھ کی نگران ضرور ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ جب سیاسی لیڈر جیل گیا یا ملک بدر کردیا گیا تو ان کی جگہ ان کی بیٹی نے نہ صرف ان کی جماعت کی قیادت سنبھالی بلکہ ان کی آبائی سیٹ بھی الیکشن لڑ ا،  جیت کر حاصل کی اور یوں سڑکوں سے لیکراسمبلی کے فلور تک ہرجگہ سیاسی وراثت کو ثابت کیااور عوام نے بھی انہیں بھرپور پزیرائی دی۔

 جس سے یہ رسم اب عام ہے کہ کسی سیاسی لیڈر کے ہاں ضروری نہیں کہ اس کی نرینہ اولاد ہی اس کے جانشین کے طور پر سامنے آئے بلکہ ان کے خاندان میں کسی میں بھی اس صلاحیت اور قابلیت ہے تو وہ اس سیاسی گدی نشینی کا حقدار ہوتا ہے وہ بات الگ ہے کہ پھر اسے عوام کے سامنے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ حقیقت میں بھی وہ ایک لیڈر اور سیاست دان ہے۔ کیونکہ ابھی فروری کے انتخابات میں جنوبی پنجاب سے’’دادا کی پوتی‘‘ نے اپنے داداکا نام استعمال کرکے اور دادا کے دوستوں کو راضی کرنے کی اپنی سی کوشش کی مگر وہ اس میں ناکام رہی۔ لیکن وہیں پر شاہ محمود قریشی کی بیٹی نے میدان مار لیا۔  بلاول بھٹو زرداری کے بطور پارٹی لیڈر کے انتخاب کے بعد ایک اور سیاسی خاندان نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا اور اس سے برسوں سے چلی ان کے ہاں رسا کشی کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ۔  خیبرپختونخواہ کے سیاسی خاندان اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما خان عبدلولی خان کے نواسے کو ان کا سیاسی جانشین قرار دیا ۔تاہم حیدر ہوتی وزیر اعلیٰ رہنے کے باوجود سیاسی گدی کے حقدار نہ رہے اور متبادل کے طور پر اسفندیار ولی اپنے بیٹے ایمل ولی کو متعارف کرواچکے ہیں ۔تحریک انصاف میں سب سے پہلے  جاوید ہاشمی نے یہ رسم شروع کی انہوں نے اپنی سیاسی جانشین بیٹی میمونہ ہاشمی کو ساتھ لے لے کر پھرتے رہے ہیں۔ فروری 24ئ کے انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا حکومت میں پی ٹی آئی والوں نے اپنا پورا زور لگایا کہ کابینہ میں ان کے بھائی بیٹے، بھتیجے وغیرہ شامل ہوں کچھ کامیاب ہوگئے اور کچھ کے دل میں ابھی ارمان ہیں۔  اس کارخیر میں دینی جماعتیں بھی کسی سے کم نہیں مولانا فضل الرحمن نے اپنے بھائی بیٹے، بھتیجے اور اپنی پارٹی کے دیگر کارکنان کے بھائی بھتیجوں بلکہ بیٹیوں کو بھی شامل کیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی تو یہ معرکہ پہلے ہی سر کرچکی ہے۔ ایک بڑی جماعت کے لیڈر کی بیٹی مریم نواز صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں تو دوسری جماعت کے صدر کی بیٹی کو ’’خاتون اول ‘‘کے اعزاز سے نوازا جاچکاہے۔ ان دونوں خواتین کی اپنی کوئی زاتی حیثیت نہیں نہ ہی ان کا سیاست میں کوئی حصہ ہے سوائے اس کے کہ وہ پارٹی رہنما ئ کی بیٹی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں