وزیراعظم کالاک ڈائون میں مزید دو ہفتے توسیع، تعمیراتی صنعت سمیت مختلف کاروبار کھولنے کا فیصلہ

اسلام آباد(سی این پی) وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس سے بچائو کے لئے لاک ڈائون میں مزید دو ہفتے توسیع، تعمیراتی صنعت سمیت مختلف کاروبار کھولنے، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کی روک تھام کیلئے سخت سزائوں پر مبنی آرڈیننس لانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا سے اموات اندازے سے کم ہیں، تعمیرات کے شعبہ کے لئے (کل) بدھ کو ایک بہت بڑا پیکج دیں گے، احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے دیگر صنعتیں بھی ضرورت کے مطابق کھولی جائیں گی، اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی صنعت کو کھولنے کے حوالے سے اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہیں، گندم کی کٹائی کے لئے دیہات میں نقل و حرکت کی کوئی ممانعت نہیں ہے، رمضان المبارک میں عبادت کے حوالے سے علماء کرام سے مشاورت کی جائے گی، ہم نے ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا احساس پروگرام دیا ہے، اب تک 28 لاکھ خاندانوں میں 47 ارب روپے تقسیم کئے جا چکے ہیں، اس پروگرام میں کسی قسم کی کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے، رمضان میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف حکومت سخت کارروائی کرے گی، بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو مرحلہ وار ملک میں لایا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر، وفاقی وزیر حماد اظہر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی امور ڈاکٹر معید یوسف اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھی موجود تھیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا وائرس پھیلنے کا بہت خدشہ تھا لیکن مشکل حالات میں ہم نے جو لاک ڈائون کیا اس کی وجہ سے یہ خوشی سے کہنا پڑتا ہے کہ جتنا ہمیں اندازہ تھا اس کا صرف 30 فیصد کورونا وائرس کا پھیلائو ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تخمینہ دنیا کی صورتحال کا جو اندازہ لگایا گیا تھا اس کے مطابق ہمارے ملک میں اموات 190 تک ہونی تھیں لیکن یہ سو سے کم رہی ہیں جبکہ امریکہ میں یہ تعداد دو ہزار یومیہ ہے، اس کے علاوہ اٹلی اور سپین میں بھی شرح اموات زیادہ ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، مشکل وقت گزر رہا ہے لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کسی بھی وقت کورونا وائرس پھیل سکتا ہے، اس لئے احتیاط لازمی ہے، بزرگ شہریوں اور بیمار افراد اس کا شکار زیادہ ہوتے ہیں لیکن نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہسپتالوں میں سہولیات موجود ہیں، وینٹی لیٹرز بھی ہیں، طبی عملے کے لئے بیرون ملک سے حفاظتی سامان بھی منگوایا ہے اور ابھی تک ہم ٹھیک جا رہے ہیں، تمام احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی جا رہی ہیں لیکن پھر بھی اگر کورونا وائرس تیزی سے پھیلا تو ہمارا صحت کا نظام اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں، ایک تو ہم نے کورونا کا پھیلائو روکنا ہے اور دوسرا جب ملک میں 26 کیسز ہوئے تھے تو ہم نے لاک ڈائون کیا تھا، اب اس کو آگے لے کر چلنا ہے، سکول، کالج، سینما گھر، کھیلوں کے میدان اور جہاں بھی لوگ جمع ہو سکتے ہیں وہاں پر لاک ڈائون برقرار رہے گا، ہمیں اس حوالے سے نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں بے روزگاری پھیل رہی ہے، دیہاڑی دار، رکشہ والے، چھابڑی والے سب لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، ہم نے اپنی حکمت استعمال کرنی ہے تاکہ لاک ڈائون بھی رکھیں اور ایک بہت بڑا طبقہ جو بے روزگار ہو گیا ہے اور گھروں میں بیٹھا ہے، ان کی مدد کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان لوگوں کی مدد کے لئے ہم نے ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا احساس پروگرام شروع کیا ہے اور اس میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں ہے، ہمارے ملک میں ہنگامی حالات میں ایسا پروگرام پہلے نہیں بنایا گیا، احساس پروگرام میرٹ پر مبنی ہے اور براہ راست ڈیٹا بیس کی بنیاد پر امداد ملتی ہے، اس پروگرام کی خاصیت یہ ہے کہ اس پروگرام میں سیاسی مداخلت نہیں ہے، سب سے غریب طبقہ جس کو سب سے زیادہ امداد کی ضرورت ہے، وہ 8171 پر ایس ایم ایس کر کے مدد حاصل کر سکتا ہے، اس کا پورا پراسیس ہو گا اور نادرا کے ریکارڈ میں اس کو چیک کیا جائے گا آیا وہ واقعی مستحق ہے یا نہیں، ان لوگوں کو 12 ہزار روپے ملیں گے، یہ پروگرام چلتا رہے گا، اب تک 28 لاکھ خاندانوں میں 47 ارب روپے تقسیم کر چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں ڈر تھا کہ اتنی بڑی آبادی تک کیسے پہنچ پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی کٹائی کا بھی سیزن ہے، اس سلسلے میں ہم نے ہر قسم کی رکاوٹ ختم کر دی ہے تاکہ دیہات میں کسی قسم کی زرعی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ شہروں میں تعمیرات اور دیگر متعلقہ شعبے آج سے کھول رہے ہیں، صوبائی وزراء اعلیٰ اور چیف سیکرٹریوں کے ساتھ بھی مشاورت ہوئی ہے، 98 فیصد اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ ابھی کون سی صنعت کھولنی ہے اور کون سی نہیں، تاہم اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے زمینی حقائق کے مطابق کسی صنعت کو کھولنے کے حوالے سے اپنا فیصلہ خود کر سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ زراعت کے بعد تعمیرات دوسرا ایسا شعبہ ہے جس سے بہت زیادہ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تعمیرات کے شعبہ کے لئے (کل) بدھ کو ایک بہت بڑا پیکج دیں گے اور اس سلسلے میں ایک آرڈیننس جاری کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے معاملے پر بھی غور کیا گیا کیونکہ صوبوں کے اندر ایک خوف ہے کہ اگر بغیر تیاری کے بیرون ملک سے پاکستانیوں کو آنے دیا گیا اور یہاں ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی سہولت نہ ہوئی تو کورونا تیزی سے پھیلے گا، اس معاملے پر بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک کا مہینہ آ رہا ہے اور رمضان المبارک میں تراویح ادا کی جاتی ہیں، اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماء سے بھی مشاورت کی جائے گی تاکہ رمضان المبارک میں عبادت بھی جاری رہے اور کورونا سے بھی بچائو کیا جا سکے، ہمیں حکمت سے کام کرنا ہے اور ایسی صورتحال کے حوالے سے کئی احادیث بھی موجود ہیں، علماء کرام کی مشاورت سے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت ملک میں دو چیزوں سے بڑا خطرہ ہے جن میں سے ایک سمگلنگ ہے کیونکہ بیرون ملک گندم کی قیمت بڑھ گئی ہے اور پاکستان سے بھی گندم سمگل ہونے کا خدشہ ہے، اس کے علاوہ ڈالر بھی سمگل ہو کر جاتے ہیں، اس معاملے پر بھی بدھ اور جمعرات کو آرڈیننس لایا جائے گا جس میں سخت سزائوں کا تعین کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دوسرا مسئلہ ذخیرہ اندوزی ہے، ہم احساس پروگرام کے تحت لوگوں کی مالی معاونت کر رہے ہیں لیکن اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے ان کیلئے مسائل پیدا ہوں گے، رمضان سے پہلے ذخیرہ اندوزی بھی کی جاتی ہے، ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خلاف آرڈیننسوں کے ذریعے حکومت مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا کمزور طبقہ مشکل میں ہے اور وہ لوگ جو دیہاڑی دار ہیں اور بے روزگار ہو چکے ہیں، ان کیلئے بڑی مشکلات ہیں، یورپ میں 90 فیصد مزدور طبقہ رجسٹرڈ ہوتا ہے اور وہاں پر ایسی کسی صورتحال میں ریاست براہ راست ان کی مدد کرتی ہے لیکن پاکستان میں 75 فیصد محنت کش طبقہ رجسٹر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے لئے رجسٹر افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور ان کو مالی معاونت کی فراہمی کے لئے ٹائیگر فورس کے ارکان بھی نشاندہی کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب تک تعمیرات کا شعبہ کام شروع نہیں کرے گا، مزدوروں کی مدد نہیں کی جا سکتی، کوئی بھی چیز خطرے سے خالی نہیں ہے، ایک طرف کورونا ہے تو دوسری جانب بھوک کا خدشہ ہے، لاک ڈائون کرتے ہیں اور غریبوں تک کھانا نہ پہنچایا تو لاک ڈائون ویسے ہی ختم ہو جائے گا، تعمیرات کا شعبہ مرحلہ وار کھول رہے ہیں، کبھی ملک کی تاریخ میں اس شعبہ کے لئے اتنا بڑا پیکج نہیں دیا گیا جو ہم دینے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے کورونا وائرس سے متاثرین کی امداد کے لئے دو ہزار ارب ڈالر اور جرمنی اور جاپان نے ایک ایک ہزار ارب ڈالر کے پیکج دیئے ہیں جبکہ ہم نے آٹھ ارب ڈالر کا پیکج دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حالات مغرب سے مختلف ہیں، لوگوں نے مشکل حالات میں لاک ڈائون پر عمل کیا ہے، ہمارے حالات بنگلہ دیش اور بھارت جیسے ہیں، ہم نے اپنے اندازے دنیا میں کورونا کے پھیلائو کو دیکھ کر لگائے، لاک ڈائون کی وجہ سے زیادہ فکر مزدور اور دیہاڑی دار طبقے کی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں اموات کم ہیں، عوام کے جمع ہونے کی جگہوں پر آئندہ دو ہفتوں تک لاک ڈائون برقرار رہے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ رمضان المبارک سے پہلے قومی رابطہ کمیٹی کا پھر اجلاس ہو گا اور کھلنے والی صنعتوں کے مالکان نے احیتاطی تدابیر اختیار کیں تو مزید صنعتیں بھی کھول سکتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ کورونا کا پھیلائو بڑھا تو پھر یہ صنعتیں بھی بند کرنا پڑ سکتی ہیں، سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے اور ایک جگہ پر لوگ جمع نہ ہوں تو باقی صنعتیں بھی کھل جائیں گی تو پھر ہمارے وہ حالات نہیں ہوں گے جو کئی امیر ممالک کے اس وقت ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام کے تعاون اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کورونا کے چیلنج پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا ہے کہ ملک کی تمام ایکسپورٹ انڈسٹری کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، تعمیراتی سیکٹر سے جڑے تمام شعبے حفاظتی تدابیر کے ساتھ کھول رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ای کامرس، لوکل ڈیلیوری کے لیے کاروبار کھول رہے ہیں جبکہ سافٹ ویئر ہاوسز، فرٹیلائزر پلانٹس، نرسریاں اورزراعت کے یونٹس کو بھی کھولا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جانوروں کے لیے طبی اسپتال، کتابوں اور اسٹیشنری کی دکانیں، شیشہ بنانے والی صنعتیں، الیکٹریشن، پلمبرز اور ترکھانوں کو کام کرنے کی اجازت ہو گی۔ انہوں نے کہاکہ حجام کی دکانیں کھولنے سے متعلق صوبوں کی مختلف آراء تھیں تاہم اسے بھی کھول رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنٹ، بجری اور ریت بنانے والے یونٹس اور تمام ایکسپورٹ انڈسٹر ی کو کھولا جائے گا۔ حماد اظہر نے کہاکہ تمام صنعتیں حفاظتی تدابیرکیساتھ کھولی جائیں گی، الیکٹریشن، پلمبر، ریڑھی لگانے والوں کواجازت ہوگی، تعمیراتی صنعت کھولنے سے متعلق صوبوں میں اتفاق ہے۔اس موقع پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی واصلاحات و خصوصی اقدامات اسدعمر نے کہا ہے کہ کچھ ذمہ دار سیاسی لیڈر کہہ رہے ہیں کہ کوئی کوآرڈینیشن نہیں ہے تو میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز میں اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج نیشنل کوآرڈینیشن کا نواں اجلاس تھاجو گزشتہ ایک مہینے کے دوران منعقد کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ این سی سی کے اجلاس میں تمام وزرائے اعلی شریک ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دو دن بعد چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت کوتفصیلی بریفنگ دینگے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بتایا کہ ہمیں مکمل احساس ہے کہ بیرون ممالک پاکستانی مشکل میں ہیں جو جلد از جلد واپس آنا چاہتے ہیں’ جس صبر سے ان پاکستانیوں نے واپسی کا انتظار کیاوہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے عدم پھیلائو اور عوام الناس کے تحفظ کے لئے 21مارچ کو فضائی حدود بند کی تھیں اس کے بعد ہمارا مقصد تھا کہ صوبوں کیساتھ ملکر ایس اوپیز بنائیں کہ بیرون ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کو آمد کے مقام پرٹیسٹ اور قرنطینہ میں ٹھہرنے سمیت طے شدہ ایس او پیز پر عمل کیا جائے اس کے لئے مشاورت کا عمل مکمل کر لیا گیا جس کے بعد 4 اپریل کو مرحلہ وار فضائی حدود کھولنی شروع کر دی ہیں ‘گذشتہ ہفتے دو ہزار پاکستانیوں کو اسلام آباد لائے ہیں ‘ کل(بدھ) سے ملک کے 6 بین الاقوامی ائیر پورٹس کھول دیئے گئے ہیں جس سے 3گنا زیادہ بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانی واپس آسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بیرون ممالک میں 35ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں جو واپس آنا چاہتے ہیں انھیں جلدی واپس لائیںگے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح ہے کہ پاکستانی مزدور طبقہ جن کی خلیج میں نوکریاں ختم ہورہی ہیں سب سے پہلے انھیں پاکستان لائے اس کے بعد رہا ہونے والے پاکستانی قیدیوں ‘ گذشتہ تین ماہ سے عمرے کے لئے جانے والے جو پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں یا ان کی ویزہ کی میعاد ختم ہوگئی ہے انھیں مرحلہ وار واپس لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان حکومت کی درخواست پر سرحد کھولی تھی تا کہ افغان شہریت رکھنے والے واپس جاسکیں ‘ اب افغانتسان میںپھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لانے کے لئے طور خم اور چمن میں ٹیسٹنگ اور قرنطینہ کی سہولت فراہم کر رہے ہیں تا کہ جلد از جلد پاکستانی واپس آسکیں۔انہوں نے کہا کہ ایران سرحد کیساتھ پاکستان کے 5اضلاع میں ایران سے آنے والی اشیاء کی روک تھام اور پاکستانی اشیائ ضروریہ کی فراہمی کو یقینی بنارہے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں کورونا سے بچائو کے لئے کئے گئے بروقت فیصلے اور اقدامات کے باعث کورونا وائرس سے اموات اور متاثرہ مریضوں کی تعداد ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ کم ہے، ہمارے اندازے کے مطابق 14 اپریل تک متاثرہ مریضوں کی تعداد 18 ہزار سے زائد اور اموات 191 تھیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس تعداد پر قابو پانے میں ابھی تک کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 5 ہزار 716 ہے جبکہ اب تک 96 اموات ہو چکی ہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اموات 3 کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب تک 51 ہزار 432 ٹیسٹ کئے گئے ہیں، اس وقت 46 افراد کی حالت تشویشناک ہے جو وینٹی لیٹر پر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے بروقت فیصلوں کے باعث متاثرہ مریضوں کی تعداد 5 ہزار 716 ہے جو دوتہائی ہے۔ اس میں کسی قسم کی بے احتیاطی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے، ہمیں ابھی بھی مکمل احتیاط کی ضرورت ہے، پاکستان میں پہلا کیس 26 فروری کو آیا اور بڑے بڑے اقدامات کرنے کی وجہ سے آج ہمارے ملک میں کیسز بہت کم ہیں اور اموات کی شرح بھی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں سخت اقدامات کئے گئے لیکن پنجاب میں اقدامات دیر سے کئے گئے اس کے باوجود سندھ میں کیسز کی تعداد زیادہ ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہو گا، مجموعی طور پر اقدامات کا اثر ہوا ہے، جس طرح وزیراعظم نے کہا ہے کہ تمام پرچون کی دکانوں، کارخانوں اور تعمیراتی کام کا آغاز کل سے ہو جائے گا لیکن ان کا فائدہ اسی وقت ہو گا جب ہم ان ایس او پیز کو ایمانداری سے پورا کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس سے متاثرہ اموات کی شرح 6.2 ہے، اس لحاظ سے پاکستان میں یہ شرح 1.7 ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر اموات کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار کے قریب ہے جبکہ صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 4 لاکھ 50 ہزار تک ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں