اسقاط حمل سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ،وائٹ ہائوس کی کڑی تنقید

واشنگٹن(سی این پی) امریکی سپریم کورٹ نے اہم مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیا، وائٹ ہائوس کی جانب سے فیصلے پر کڑی تنقید کی جارہی ہے۔تفصیلات کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے ریاست لوزیانا کے اسقاط حمل سے متعلق ایک قانون کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔چیف جسٹس جان رابرٹس سمیت4ججز نے لوزیانا ریاست کے قانون کیخلاف فیصلہ دیا جبکہ4ججز کی جانب سے قانون کی حمایت میں فیصلہ سامنے آیا۔کنزرویٹو سمجھے جانے والے چیف جسٹس جان رابرٹس کا اقدام کچھ لوگوں کے لیے حیران کن تھا جنہوں نے چار لبرل ججوں کے ساتھ مل کر کثرت رائے سے یہ فیصلہ دیا۔دوسری جانب اسقاط حمل کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے جبکہ وائٹ ہائوس نے سپریم کورٹ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔صدرٹرمپ کی انتظامیہ اسقاط حمل کے عمل کیخلاف ہے، اس حوالے سے ترجمان وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ریاستی حکومتوں کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔جسٹس اسٹیفن برائر نے کہا کہ لوزیانا کا قانون غیرآئینی ہے، اسقاط حمل کی مخالفت پر ڈاکٹروں نے مریضوں کو داخل کرنے سے انکار کیا۔سپریم کورٹ کے جج اسٹیفن برائر نے لکھا کہ ججوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ لوزیانا کا قانون غیر آئینی ہے۔ لوزیانا کا قانون اسقاط حمل کروانے والوں پر اسی طرح بوجھ بڑھاتا ہے جیسے ٹیکساس کا قانون کرتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ لوزیانا کا قانون ہماری نظیروں کے مطابق قائم نہیں رہ سکتا، یہ فیصلہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ قدامت پرست امریکا میں اسقاط حمل کے حق کو ختم کروانا چاہتے ہیں۔واضح رہے کہ امریکامیں ہرسال8لاکھ اسقاط حمل کے کیسز ہوتے ہیں، ہاس اسپیکرنینسی پلوسی نے لوزیانا کے قانون کو ڈریکونین قانون قرار دے دیا، نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ لوزیانا کا قانون خواتین کی آزادی ختم کرنے کے مترادف ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں