خواتین بیوروکریٹس ————– شاہد اعوان

تاریخِ اقوام کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ تہذیب و تمدن کی تعمیرو تخریب میں وجودِ زن ہی کارفرما رہی ہے ایران، روم اور یونان کی عظیم تہذیبیں محض اس لئے تخت و تاراج ہوئیں کہ وہاں کے حکمرانوں پر نازنینانِ
ہوشربا کا سحر کارگر ہو گیا تھا۔ کسی بھی معاشرے کی صورت گری عورت کی مرہونِ منت رہی ہے عورت ہی کی گود میں قوموں کی تقدیریں بنتی اور بگڑتی رہی ہیں ۔ مغربی دنیا کی تحریکِ آزادیٔ نسواں خراماں خراماں اب اسلامی ریاستوں میں بھی پہنچ چکی ہے اس کے باوجود دینِ فطرت مغربی تصور مساواتِ مردوزن کا قطعا قائل نہیں۔ انبیائ، اولیاء و صوفیاء بطنِ نساء ہی سے تولد ہوئے قوم کے مصلحین، محافظین اور قائدین آغوشِ مادر ہی میں پرورش پا کر شاہراہِ منزل پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ نپولین بوناپارٹ نے بھی اسلامی نظرئیے سے متاثر ہو کر کہا تھا ”تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔” شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اُس کی
کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوں
وطن عزیز میں اکیسویں صدی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر شعبہ زندگی میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ سرکاری و نجی شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ گزشتہ ادوار میں خواتین محکمہ تعلیم اور صحت میں کام کرنے کو ترجیح دیا کرتی تھیں لیکن اب عسکری اداروںکے علاوہ پولیس، بینکنگ،آئی ٹی اور نجی شعبوں میں اعلیٰ و ذمہ دار عہدوں پرخواتین ناصرف نظرآتی ہیں بلکہ وہ اپنے اپنے اداروں میں اعلیٰ کارکردگی کی بدولت صفِ اول میں موجود ہیں ۔ پچھلے چند عشروں سے سول سروس، افواج اور پولیس میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں نے زیادہ کامیابیاں حاصل کر کے ثابت کیا کہ وہ ذہنی استعداد کے ساتھ ساتھ انتظامی امور میں بھی مہارت میں کسی سے پیچھے نہیں اور مستقبل قریب میں خواتین سول سرونٹ ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور سیکرٹری کے عہدوں تک پہنچنے کا عزمِ صمیم رکھتی ہیں۔ ہمارے ضلع میں بھی اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر جوہر دکھانے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لئے دو خواتین افسران موجود ہیں جہاں تحصیل حسن ابدال میں مس زنیرہ جلیل اور حضرو میں مس شگفتہ جبیں نے ٹریننگ کے بعد کیریئر کی پہلی پوسٹنگ لی تو چند ماہ کے اندر اندر انہوں نے اپنے فرائض منصبی کو سمجھنے اور مخلوقِ خدا کی خدمت میں دن رات ایک کر رکھا ہے ان کے پاس جانے والے سائلین بتاتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں انتہائی مشاق اور گرفت رکھتی ہیں خصوصا صنفِ نازک کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو پایۂ تکمیل تک پہنچنانے میں ہردم سرگرم رہتی ہیں اور خواتین بھی اپنے معاملات ان کے ساتھ بلاجھجک بیان کرنے میں آسانی محسوس کرتی ہیں، عوامی مسائل کے حل کے لئے لوگوں سے میل جول میں بھی انہیں کوئی دقت پیش نہیں آتی وہ ہر مسئلے کے بہترین حل کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ زنیرہ جلیل چونکہ ایک بڑے اور اعلیٰ عہدے سے ریٹائر بیوروکریٹ کی صاحبزادی بھی ہیں انہوں نے پوری زندگی اپنے والد کو مختلف عہدوں پر کام کرتے دیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سول سروس کی پیچید گیوں سے بخوبی آگاہ بھی ہیں جبکہ مسائل اور مشکل سے مشکل معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں خاصی مہارت رکھتی ہیں۔ جبکہ شگفتہ جبیں کے والد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں انہوں نے اپنی صاحبزادی کو زندگی کی تمام اونچ نیچ اور مشکلات کو مدنظر رکھ کر تربیت دی ہے۔ بیوروکریسی میں افسران کا براہ راست عوام الناس کے ساتھ واسطہ رہتا ہے ہم دعاگو ہیں کہ نوجوان بیوروکریٹ اگر اپنی زندگیوں میں عوامی مشکلات کے ازالے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ہمدرانہ حسنِ سلوک کو بھی اپنے معمول میں شامل کر لیں تو کامیابیاں خود بخود ان کے قدم چومیں گی اور اگر محض افسرانہ شان و شوکت دکھا کر وقت گزارنے کی روش اختیار کی تو وہ محض دستخط کرنے والی مشین تو بن جائیں گے لیکن ترقی کے زینے طے کرنے میں قدم قدم پر دشواریاں ان کا راستہ روکتی رہیں گی۔ جن لوگوں نے مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنایا وہ آنے والی زندگی میں تو سرخرو ٹھہرے ہی اس دنیاوی زندگی میں بھی اعلیٰ مراتب پر فائز ہوئے اور خلق کی دعائوں کی بدولت حکومتوں نے ان کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں