صدر جوبائیڈن کی نئی’افپاک‘ پالیسی ؟ ….. قادر خان یوسف زئی

جو بائیڈن کے برسر اقتدار آنے پرپوری دنیا خوش آئند تبدیلی کی منتظر ہے‘ بالخصوص پاکستان کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں کہ پاک افغانستان سرحدوں پر جنگ کی صورتحال میں بہتری آئیگی اور بھارت کے ساتھ جاری قیام امن کی کوششوں کو تقویت ملے گی لیکن شایدایسا نہ ہو سکے بلکہ ممکنات ہیں کہ صدرجوبائیڈن ماضی کی امریکی پالیسی کا تسلسل جاری رکھیں، امریکامیں با اثر لابیاں ہرگز نہیں چاہتیں کہ امریکہ مسلمانوں کیساتھ نرمی کا سلوک کرے، بلکہ یہ اسلام دشمن طاقتیں امریکی حکام کو اسلام کا ڈراوا دیکرانہیں مسلمانوں کیخلاف سرگرم عمل دیکھنا چاہتی ہیں۔ افغان طالبان و امریکا کے درمیان دوحہ مفاہمتی معاہدے پرجوبائیڈن انتظامیہ نظر ثانی کرنا چاہتی ہے۔ امریکا کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ امن معاہدے میں طے پانے والے تمام نکات کا احترام کریں۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے مشیر جیک سلیوان کا کہنا ہے کہ امریکا جاننا چاہتا ہے کہ آیا (افغان)طالبان دہشت گرد گروہوں سے رابطے منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد میں کمی اور اس سے متعلق کیے گئے اپنے تمام وعدوں پر عمل پیرا ہیں یا نہیں؟۔ یاد رہے کہ دوحہ مفاہمتی عمل معاہدہ،سابق صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکا کی اُس جنوبی ایشیا ئی پالیسی کا حصہ ہے، جس میں 20برس قبل افغانستان میں چھیڑی جانے والی جنگ سے افواج کی واپسی کی کوششیں اوباما دور ِ حکومت سے شروع کی گئیں۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن امریکا کے نائب صدر کی حیثیت سے افغانستان پالیسی کا حصہ و زمینی حقائق سے کماحقہ آگاہ ہیں۔ اوباما نے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی کے کئی مہینے بعد’افغان پالیسی‘ کا اعلان کیا، صدر اوباما کی افغان پالیسی کے مطابق 2009 میں 30ہزار سے مزید امریکی فوجی بھیجنے اور تین برس کے اندر فتح حاصل کر نے کا دعویٰ ظاہر کرکے بیشتر فوجیوں کو واپس بلانا تھا، اوباما کی افغان پالیسی میں افغان سیکورٹی فورسز کے تربیت کے دائرے و استعداد بڑھانے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں مزید فوجیں بھیجنے کا فیصلہ متوقع قرار دیا گیا تھا کیونکہ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سٹینلی مک کرسٹل نے40 ہزار مزید فوجی بھیجنے کی درخواست کرتے ہوئے فتح حاصل کرنے کے لئے ایک برس کا ٹائم فریم دیا تھا، اُس وقت افغانستان میں ایک لاکھ اور35ہزارنیٹو فوجی موجود تھے جو امریکی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے نا کافی تصور کئے جا رہے تھے۔
اوباما کے بعد صدر ٹرمپ نے افغانستان میں ’فتح‘ حاصل کرنے کی کوشش کی اور جنوبی ایشیائی پالیسی میں پاکستان کے خلاف جہاں ہرزہ سرائی و سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے سخت رویہ اختیار کیا، تو بھارت کی جانب جھکاؤ کو بڑھا دیا، لیکن بھارت کی خوفزدگی و پاکستان مخالف سازشوں کی وجہ سے افغانستان کا مسئلہ مزید گنجلگ ہوتا چلا گیا، بالا آخر صدر ٹرمپ نے پاکستان سے کلیدی کردار ادا کرنے کی درخواست کی اور پاکستان،(جو روز اوّل سے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے امریکی مفادات کا خیال رکھتا رہا ہے) نے دوحہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کرکے صدی کا تاریخی معاہدہ کرانے میں افغان طالبان اور امریکا انتظامیہ کے درمیان معاہدہ کو اصولی قرار دے کر اہم کامیابی حاصل کرلی، جس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جانا تھا، لیکن کابل انتظامیہ کی جانب سے کئی ایسے معاملات میں رخنہ ڈالا گیا، جس سے انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع ہونے میں کافی قیمتی وقت ضائع ہوا، تاہم صدر ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا سلسلہ جاری رکھا اور اہم ملٹری بیس بھی خالی کرنا شروع کردیئے، یہاں تک کہ صدر ٹرمپ نے کرسمس تک تمام امریکی فوجی واپس بلانے کی خواہش کا ارادہ بھی ظاہر کردیا گیا، تاہم محکمہ دفاع پینٹاگون کے اعتراض کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکا۔
جو بائیڈن انتظامیہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹین کی جانب سے دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کے حوالے سے اہم بیان سامنے آیا تو گمان کیا گیا کہ افغان طالبان و امریکا کے درمیان معاہدہ ختم ہوسکتا ہے۔ تاہم زمینی حقائق امریکا کو کسی ایسے اقدام کرنے سے روکیں گے، کیونکہ بیس برس کی لاحاصل جنگ میں امریکا نے سوائے کھربوں ڈالرز کے نقصان کے علاوہ ثانوی کامیابی بھی حاصل نہیں کی اور افغانستان کی سرزمین کے بڑے حصے پر افغان طالبان کی مکمل عمل داری ہے، کابل انتظامیہ سمیت غیر ملکی فورسز کا ساٹھ فیصد سے زائد حصے پر معمولی کنٹرول بھی نہیں، لہذا امریکی نئی مہم جوئی کا فیصلہ تباہ حال امریکا کے لئے بہت مشکل فیصلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ممکن ہے کہ امریکی افواج کی باقی ماندہ تعداد کو اُس وقت تک افغانستان سے واپس نہ بلایا جائے، جب تک کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان کسی متفقہ معاہدے پر متفق نہیں ہوجاتے، امریکا کے لئے افغانستان میں جاری پُر تشدد واقعات کا نہ رکنے کی بنیاد ہی کافی ہے، کہ جب تک کامل جنگ بندی نہیں ہوتی، امریکا، افغانستان سے مکمل انخلا نہیں کرسکتا، افغان طالبان بھی دوحہ معاہدے کو توڑنے میں عجلت سے کام لینے سے گریز کریں، تاہم کابل انتظامیہ کے ساتھ جہاں مذاکراتی عمل کی آس برقرار رکھی جائے گی تو دوسری جانب افغان سیکورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آنے کے امکانات قوی ہیں، کیونکہ طے شدہ ایجنڈے کے مطابق افغان طالبا ن، ان اسیروں کو رہا کرانے میں سنجیدہ ہے، جو دوحہ معاہدے کے علاوہ کابل انتظامیہ کی تحویل میں ہیں، دونوں فریقین کے پاس اسیرتبادلے کے لئے موجود ہیں، تاہم کابل انتظامیہ کے اسیروں کے مقابلے میں افغان طالبان کی بڑی تعداد کو رہائی دینے سے کابل انتظامیہ شش وپنج کا شکار ہے کیونکہ اس طرح افغان طالبان کی جنگی قوت میں اضافہ ہورہا ہے۔
افغان طالبان اور امریکا کے درمیان دوحہ معاہدے کے مطابق اہم شق افغان طالبان اسیروں کی رہائی و تبادلہ عمل میں آچکا ہے، اب افغان طالبان یہ چاہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے مطابق،امریکا اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے افغان طالبان کے رہنماؤں کے نام نکالنے،اور سفری پابندیوں کی شقوں پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے، جو دوحہ معاہدے میں امریکا نے اپنی ذمے داری قرار دیا ہے۔ افغان طالبان کے دعوؤں کے مطابق انہوں نے دوحہ معاہدے کے بعد غیر ملکی افواج پر حملہ نہیں کیا، تاہم امریکا نے معاہدے کی پاسداری نہیں کی اور عام شہریوں کے علاوہ افغان طالبان پر فضائی حملوں میں شریک رہے ہیں، جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے ، تاہم اس کے باوجود افغان طالبان نے معاہدے کو ختم نہیں کیا، بلکہ افغان طالبان چاہتے ہیں کہ معاہدے کے مطابق امریکا، اُن سے طے کئے جانے والی دستاویزات کے مطابق عمل کرے، غیر ملکی افواج کے انخلا کو مکمل کرے اور افغانستان میں مداخلت کو ختم کردے۔ٹرمپ انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد دنیا جوبائیڈن کی جنوبی ایشیائی پالیسی، بالخصوص افغان امن عمل پر باقاعدہ ریاستی موقف جاننے کی منتظر ہے، تاہم صدر جو بائیڈن کی جانب سے جنوبی ایشیائی پالیسی بالخصوص افغان اسٹریٹجی جلد آنے کے امکانا ت کم دکھائی دیتے ہیں، خیال کیا جارہا ہے کہ ایران، چین اور افغانستان میں امریکی مفادات کے لئے ٹرمپ پالیسی پر معمولی تبدیلیاں ممکن تو ہوسکتی ہیں، تاہم جس طرح جوبائیڈ ن نے حلف اٹھانے کے ساتھ ہی 17 ایگزیٹو آرڈر پر دستخط کرکے اہم معاملات پر یکسر پالیسی تبدیل کی، افغانستان، ایران اور چین کے معاملے پر ایسا امکان کم نظر آرہا ہے، صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ سمیت عظیم مشرق وسطیٰ پر اسٹریٹجک پالیسی پر تحمل کے ساتھ اہم فیصلہ سازی کرسکتے ہیں۔
افغان طالبان کے ساتھ فی الوقت مئی2021 تک دوحہ معاہدے کو کوئی خطرات درپیش نظر نہیں آتے، نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے توسط سے افغان طالبان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ضرور کریں گے لیکن امریکا جانتا ہے کہ پاکستان بھی اتنا ہی کرسکتا ہے، جتنا انہوں نے کیا۔ یہ بھی امریکی انتظامیہ بہت اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل ہے، ماضی میں پاکستان کو نظر انداز کرنے کی روش امریکی مفادات کے لئے ثمر آور ثابت نہیں ہوئی، لہذا بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات سمیت دفاعی معاملات میں پاکستان کو پرانی پوزیشن پرخو د امریکا کے لئے ممکن نہیں ہوگا، کابل انتظامیہ اپنی اقتدار کی مدت بڑھانے اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے صدر جوبائیڈن کو گمراہ کرنے کی کوشش کرسکتی ہے لیکن صدر جوبائیڈن امریکا کے روایتی و انتہائی تجربہ کار سیاست دان ہیں، دیگر اوباما انتظامیہ کا حصہ ہونے کے باعث افغان مسئلے کے تمام امور سے کماحقہ واقف بھی ہیں۔
، امریکا پہلے ہی افغان طالبان کی مزاحمت کو ”انسر جنسی“ قرار دیتے ہوئے تسلیم کرچکے ہیں کہ ان (افغان طالبان) کے عزم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوسکی اور حد سے زیادہ حفاظتی انتظامات میں گھرے ہوئے کابل پر جس وقت بھی چاہتے حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سابق صدر بارک اوباما نے لاکھ سے زائد فوج کی موجودگی کے باوجود 33ہزار فوجی مزید بھجوا کر دیکھ لیا ہے کہ تعداد زیادہ ہونے سے پہلے بھی افغان طالبان کو کوئی فرق نہیں پڑا، 2012 میں اگر امریکا اپنے وعد ے کے مطابق انخلا مکمل کرلیتا تو آج دس برس بعد پینٹاگون بند گلی میں کھڑا نہ ہوتا۔ دس برس قبل امریکا اپنی افواج پر سالانہ29ارب ڈالر خرچ کرتا رہا ہے، جس میں ہر برس اضافہ ہی ہورہا ہے، تاہم نقصان عام افغان شہریوں کا ہورہا ہے، جسے پنیٹاگان حکام ’کولڑل ڈیمج‘ قرار دے کر افغان طالبان پر ذمے داری ڈال دیتا ہے۔ زیادہ تر امریکی افغان جنگ کے نتائج سے خوش نہیں ہیں، انٹرنیشنل کرائس گروپ (آئی سی جی) کئی برس قبل اپنی رپورٹ میں بتا چکا ہے کہ افغانستان میں امریکی مداخلت بُری طرح ناکام ہوچکی ہے اور امریکا اپنے بیان کردہ اہداف حاصل کرنے میں کسی اعتبار سے بھی کامیاب نہیں رہا ہے، لہذا افغان اسٹیک ہولڈرز کو اپنی عوام کے لئے فروعی مفادات کو ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے اجتماعی مفاد کو ترجیح دینا ہوگی، کیونکہ اندرون خانہ جنگ اور اختلافات سے ماسوائے نقصان، کچھ حاصل نہیں ہورہا۔ افغان طالبان کی جدوجہد و کابل انتظامیہ کا موقف خطے میں امن کے لئے کڑوے و سخت فیصلے کرنے کے منتظر ہیں، گذشتہ چالیس برسوں سے افغان عوام کی تین نسلیں اپنی آبائی وطن سے دور کسمپرسی و نامساعد حالات، مایوسی و بے یقینی کے ساتھ پل رہی ہیں، جس کے مضر اثرات سے ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والی قوم کی بقا و سلامتی کو مستقبل میں خطرات کا سامنا ہے، جس کی ذمے داری یکساں طور پر تمام فریقین پر عائد ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں