5 فروری اور کشمیری قوم———مہوش سردار

5فروری کی تاریخی اہمیت اور اسکے پس منظرپر ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لکھنے والے موجود ہیں اور مسلسل لکھ بھی رہے ہیں مگر ۔۔۔5 فروری جسے یوم یکجہتی کشمیر کا نام دیا گیا ہے اور اس دن یہ باور کروایا جاتا ہے کے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں پاکستانی قوم دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ہے کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے. اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کچھ لوگ5 فروری کو ہاتھوں میں بنیرز اور کارڈ اٹھا کر باہر نکلتے ہیں۔اکثریت چھٹی کا دن غنیمت جان کر اپنے بستر میں رہنے یا دھوپ میں بیٹھ کر مالٹے چھیل کر کھاتے ہوے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔سرکاری سطح پر کچھ طالبات ،اساتذہ اور کچھ سرکاری افسران ایک رسمی واک ایک رسمی تقریر کر کے اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اپنی یکجہتی کسی بھی تحریر کو کاپی پیسٹ کر کے کچھ ایڈٹ کر کے کسی پروگرام میں شامل ہو کر سیلفی اور تصویریں بنا کر چند لائک اور توصیفی کمنٹس سمیٹ کر کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کر دیتے ہیں۔ جو چند میرے جیسے لوگ رہ جاتے ہیں وہ یا تو یہ سب دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں یا اسی سوچ میں غرق رہتے ہیں کے ہم کشمیریوں کا بنے گا کیا۔۔ ؟؟؟اب کورونا کا دور چل رہا ہے اس دفعہ کا یوم یکجہتی کشمیر تو ویسے بھی تھوڑا محدود احتجاجی پروگرام ہو گا۔ لیکن اس سارے عمل سے کشمیریوں کو کیا حاصل ہو گا۔۔؟؟یکجہتی سے مراد اتحاد ہے۔۔اب یہ اتحاد کشمیریوں کیساتھ کدھر تک ہے؟؟؟۔کیا کبھی ہم سب نے ایک بھی دفعہ یہ سوچا ہے کے ان سب ڈراموں اور ہمدردی سے کسی ایک کشمیری کو عالمی اور سفارتی سطح پر کیا فائدہ حاصل ہونا ہے۔۔؟بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 کو تحریک آزادی کی صدا کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے قانون میں تبدیلی کی اور اس پار کے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے نئے دور کا آغاز کیا۔۔ہم سب نے احتجاج کیا لیکن روک نہ سکے۔۔۔ ؟؟بھارت کی ماضی کی حکومتوں، چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنا زع حیثیت کو ایسے چھیڑنے کی کوشش نہیں کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑا دیا اور گزشتہ 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا لیکن ہمارے احتجاج سے کیا ہوا۔۔ ؟؟ سابقہ امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آفر ماری کے ہم ثالثی کا کر دار ادا کریں گے اور ایسی ثالثی ہوئی کے ہم اپنے ہی جموں کشمیر اور اپنی شہ رگ کہلانے والے زمین کے ٹکڑے کو بھارت کی جھولی میں ڈال کر اقوام متحدہ میں تقریر کرتے رہے۔۔ اس احتجاج سے کیا ہوا۔۔؟؟اب ادھر کے کشمیریوں کی بھی سن لیجئے۔۔ الیکشن 2021 کی آمد ہے۔۔اسوقت کشمیر سب کو اپنی دکان چمکانے کے لئے تو یاد آ جاتا ہے کیونکہ مستقبل میں کسی الحاقی پارٹی کا تاج سر پر ہو گا تو سب کی دکان چمکے گی۔اس صورتحال میں جلسے جلوس ریلیاں اور جتنی بھی تقریری مہم چلا کر سوشل میڈیا پر بات کی جا سکتی ہے وہ زور و شور سے جاری یہ نعرہ یا تو تبدیلی کا ہے یا پھر شیر اور تیر کی حکمرانی کا ہے اس میں کشمیر کہاں ہے؟؟؟یوم یکجہتی کشمیر کا مطلب ہے کے ہر صورت ایک اتحاد متحدہ جموں و کشمیر کے لیے۔۔ اب یہ اتحاد کس کو کہاں نظر آتا ہے۔ہمارے صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان بہت اچھے
طریقے سے کشمیر کا مسلہ ڈسکس کرتے نظر آتے ہیں۔آئے روز انکے کسی نہ کسی ایمبیسڈر کیساتھ کشمیر پر مختلف سیمینارز چل رہے ہوتے ہیں لیکن مجال ہے جو کوئی ایک بھی ملک ابھی تک ہمارے شانہ بشانہ آ کھڑا ہوا ہو۔۔ یا تو وہ ایمبیسڈر ہمارا پیغام اپنے سربراہوں تک پہنچاتے نہیں یا پھر ہم اپنی آواز ہی ٹھیک طرح سے نہیں سنا پا رہے اب اس بارے میں سوچنے کی کس کو فرصت۔ ساری صورتحال میں مقبوضہ کشمیر جو کے اب بھارت کا حصہ کہلاتا ہے مسلسل ہندوستانی فوج کے عتاب کا شکار ہے۔۔ اور اس طرف کے بچے کچھے پہاڑیے دونوں طرف کی فائرنگ کے نشانے پر رہتے ہیں۔۔ کھبی مال مویشی کا نقصان،کبھی گھروں کا اورکبھی اپنے کسی بہت پیارے کی جان کی صورت میں قربانی دینے کے باوجود بھی شنوائی کہیں نہیں ہو رہی۔۔۔ ظلم و ستم کسی بھی طرف سے نہیں رک رہا۔۔ سیاستدان ،پلے کارڈ اور بینرز اٹھانے والی ساری عوام ایک طرف نعرے لگاتی رہتی ہے اور دونوں اطراف کے بارڈر والے لوگ اپنے گھروں کی جلتی آگ کو بجھانے میں مصروف رہتے ہیں۔۔کچھ ہم ویسے ہی بے انتہا ء بیوقوف لوگ ہیں جو ہر روز سب کچھ دیکھنے کے باوجود اب عادی سے ہو گئے ہیں کے یہ تو روز کا قصہ ہے۔۔مجھے اس یکجہتی کے ٹوپی ڈرامے سے اختلاف ہر گز نہیں لیکن آزاد کشمیر اور پاکستان یا بھارت کے علاوہ دنیا کا کوئی بھی ملک جموں اور سرینگر میں رہنے والی اس ماں کا دکھ نہی بانٹ سکتے جس نے اپنے جوان بیٹے کو انتہائی کرب کی حالت میں کھو دیا ہو ۔۔یہاں کی کوئی بھی عورت اس پار کی کسی ماں،بہن اور بیٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو ہندوستانی فوج کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی دھرتی اور عزت کا دفاع کرتی ہیں۔۔وہ بے خوف و خطر بچے جو کسی بھی ہندوستانی فوج کی گاڑی کو دیکھ کر ہاتھ میں پتھر اٹھا لیتے ہیں ہمارے بچوں کو ان بچوں سے ہمدردی صرف چند الفاظ کے زریعے سنا دی جائے گی لیکن اسے محسوس کرنے ولا کوئی نہیں ہو گا۔۔ کہنے کو حکومت پاکستان ہماری وکیل ہے لیکن ہمارے وکیل کی خارجہ پالیسی کو دیکھئے۔۔ ہم اسوقت عربوں سے ،امریکیوں سے اور کسی بھی اور ملک سے اگر کشمیر کے بارے میں منصفی یا فیصلے کی بات کریں تو سب کا جھکا ئو بھارت کی طرف زیادہ اور ہماری طرف کم ہوتا ہے۔۔ اسکی بنیادی وجہ یہی نعرے ہیں جو پاکستانی اور بشمول کشمیری قوم دن رات لگانے میں مصروف رہتی ہے لیکن کسی کو یہ فکر نہیں ہوتی کے خود کو کیسے اس دنیا میں شامل کیا جائے جس کیوجہ سے ہمارے فیصلوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے ۔عمل کیے بغیر زبانی کلامی نعرے سب پچھلے 73 سالوں سے چل رہا ہے۔۔ بہتر ہے کے کشمیر کے نقطہ نظر کو دنیا کے سامنے اس انداز سے رکھا اور پیش کیا جائے جو اسکا حق ہے۔۔ موثر اور جاندار آوازیں کہیں گم سی ہیں انھیں ابھر کر باہر آنا ہو گا۔۔ایک مٹھی کی صورت کا اتحاد جس دن کشمیری قوم نے اپنے اندر بیدار کر لیا کشمیر دنیا کے نقشے پر ابھر کر سامنے آ جائے گا۔۔ جس دن سب متحد ہو گئے اس دن اقوام متحدہ بھی ہمارے حق خود ارادیت کو سمجھ لے گا۔جس دن پاکستان کے حکمران طبقات نے اپنے مفاد سے ہٹ کرسوچا اس دن یوم یکجہتی کشمیر کا مقصد بھی پورا ہو جائے گا۔۔تبھی 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کہلائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں