یو م یکجہتی کشمیر، سابق سفیرکی تجویز اور حامد میر کے انکشافات——- نثار کیانی

حکومت پاکستان گذشتہ تین دہائیوں سے کشمیر ی عوام کی جدوجہد آزادی سے یکجہتی کے لئے ہر سال 5 فروری کویوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے ۔اس روز کشمیری عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے سیاسی و سماجی تنظیمیں سرکاری و نجی ملازمین، سکول و کالج اور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات ریلیاں ، تقریبات او رسیمینار ز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اسی سلسلے میں دو روز قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹر سراج الحق کی میزبانی میں اسلام آباد میں قومی کشمیر کانفرنس کا انعقاد ہوا کانفرنس میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین ، سفارتکار ، کشمیری قیادت ، وکلا ، صحافی ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے اور مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔ مقررین میں آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان ، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر ، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف ، مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق ، سینیٹر مشاہد حسین سید ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل عبدالغفور حیدری ، سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی امیر العظیم ،نائب امرا جماعت اسلامی میاں محمد اسلم، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ،پروفیسر محمد ابراہیم ،جے یوپی کے رہنما اویس نورانی ، جمعیت اہلحدیث کے رہنما پروفیسر ساجد میر ،سینئر سفارتکار عبدالباسط ، سینئرصحافی حامد میر، پی پی کے سینیٹر نیئربخاری ،امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم ، امیر جماعت اسلامی اسلام آباد نصر اللہ رندھاوا، امیر جمعیت علمائے اسلام مولانا حامد الحق ، صدر تحریک نوجوانان عبداللہ گل ، حریت رہنما محمود احمد ساغر، شمیم مشعال ، متحدہ جمعیت اہلحدیث کے رہنما سید ضیااللہ شاہ بخاری ، علامہ عارف واحدی ، حافظ زبیر احمد ظہیر ، نمائندہ وفاق المدارس عبدالقدوس ، سردار رجیت سنگھ ، قاری یعقوب شیخ نے خطاب کیا ۔کانفرنس کے میزبان سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر پر قومی ایکشن پلان بنایا جائے، کشمیر پر سفارتی ایمرجنسی نافذ کی جائے نائب وزیر خارجہ برائے کشمیر کا تقررکیا جائے ،سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ آزادکشمیر کی منتخب قیادت کو مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا کردار دیا جائے ،انہوں نے کانفرنس کی اس تجویز کو بھی سراہا کہ آزادکشمیر کے آئین میں ترمیم کر کے آزادکشمیر کا دائرہ کار مقبوضہ کشمیر تک بڑھایا جائے ،اس موقع پر پاکستان کے نامور صحافی حامد میر نے انکشاف کیا کہ پانچ اگست 2019 سے تین دن پہلے فاروق حیدر کو اعلی سطحی اجلاس میں بتا دیا گیا تھا کہ ہندوستان کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دے گا۔ پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ اور لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنائے گا۔ اسی لئے فاروق حیدر خود کو آزاد کشمیر کا آخری وزیر اعظم کہہ رہے تھے۔فاروق حیدر نے اس کے حل کیلئے تجاویز دیں جن کو رد کیا گیا۔ان کا مزید کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی ایک جماعت کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کی راہ ہموار کریں اور یہ جماعت پیپلزپارٹی نہیں ہے۔حامد میر نے کہا کہ راجہ فاروق حیدر ہوتے تو کھل کر بات کرتا ۔ انہوںنے کہا کہ راجہ فاروق حیدر کی حکومت کی مدت ختم ہونی والی ہے انہیں اصلی کشمیر ی بن کر بات سامنے لانا ہوگی ۔ ان کا کہناتھا کہ حکومت پاکستان کشمیر کا آوٹ آف باکس حل تلاش کر رہی ہے ۔گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔آزادکشمیر کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ شروع ہوگی اور آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ سابق سفیر عبدالباسط نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو اقدامات ہم خود نہیں اٹھا سکتے وہ دوسروں سے کس لیے مطالبہ کرتے ہیں پہلے پاکستان کو وہ اقدامات اٹھانا ہوں گے کشمیر بہت تیزی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے بین الااقوامی قوانین کے ہوتے ہوئے بھی ہم کچھ نہیں کررہے ہیں ،بدقسمتی سے ہم ان چیزوں کو ہائی لائٹ نہیں کرسکے پاکستان اس مسئلے کو اہمیت دے پاکستان کوکشمیر پر اپنا ایک خصوصی نمائندہ بنانا چاہیے فوکل پرسن ہونا چاہیے۔ کانفرنس میں سابق سفیر عبدالباسط نے تجویز دی کہ آزاد حکومت ایکٹ 74 کے آرٹیکل 11 میں ترمیم کرتے ہوئے مشیر رائے شماری مقرر کرے اور آرٹیکل دو میں ترمیم کر کے ریاست جموں کشمیر کی ٹیریٹری کو ری ڈیفائن کرے اور مقبوضہ کشمیر کو اس میں شامل کرے۔اس کے ساتھ صدر ریاست مسعود خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام سے بات ہونی چاہئے. گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔آزاد کشمیر کے بارے میں گفتگو نہیں ہو رہی۔آزاد کشمیر کے حوالے سے اس قسم کی گفتگو نہیں ہونی چاہیئے۔اس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی تمام سیاسی سماجی مذہبی جماعتیں جدوجہد آزادی کشمیر مکمل حمایت کرتی ہیں ۔30 سالہ یوم یکجہتی کے بعد اگر مسئلہ کشمیر پر ذرا برابر فرق نہیں پڑا تو میرے خیال میں اس احتجاج پر کچھ زیادہ سوچا نہیں گیا ہے کیونکہ ایسی سرکاری تقریبات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ سرکاری سطح پر احتجاج کسی صورت حقیقی احتجاج نہیں کہلایا جا سکتا ہے۔ ایسی تقریبات کے اثرات مختصر دورانیے کے لیے ہوتے ہیں، ان کا دیرپا فائدہ نہیں ہوتا۔دراصل حکومتیں ایسی تقریبات عوامی غضب سے بچنے کے لئے کرتی ہیں ۔احتجاج اور یکجہتی تو اپوزیشن اور عوام کا کام ہے ۔حکومت پاکستان کو اس تحریک کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت کے راستے تلاش کرنے چاہیے تھے لیکن افسوس کے 73 سالوں میں اس بارے میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو سکی۔آج یوم یکجہتی کشمیر پر روایتی طورپر تمام تقریبات ، سیمینارز اور ریلیاں منعقد ہوں گی ، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کوٹلی میں عوامی اجتماع سے خطاب ،جبکہ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم مظفرآباد میں سیاسی طاقت کا مظاہر ہ کرے گا ۔ آج کی تقریروں میں پاکستان کی سیاست پر گفتگو کو کلیدی جبکہ مسئلہ کشمیر کی ثانوی حیثیت ہوگی ۔آزادکشمیر کو صوبہ بنانے کی باتوں سے قبل ہی پاکستان کی قومی سیاست آزادکشمیر میں وارد ہو چکی ہے ،جبکہ آزادکشمیر کے سیاستدان ان کا ایندھن بننا شروع ہو چکا ہے ،ریاستی تشخص کی دعویدار جماعت پی ٹی آئی کی یلغار کا شکار ہے اور ان کے کیمپ میں مکمل خاموشی طاری ہے ۔ لیکن حامد میر کے کشمیر کے بارے میں تہلکہ خیز انکشافات کے بعد کشمیر ی عوام کی آنکھیں کھل جانی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کے نام پر ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔پاکستان کی سیاسی قیادت کے روبروحامد میر کا اپنی تقریر میں یہ کہنا کہ میں کشمیر پر تقرریں کر کر کے تنگ آچکا ہوں یوں لگتا ہے کہ میں باقی لوگوں کی طرح کشمیر پر کشمیریوں کے ساتھ جھوٹ بول رہا ہوں ۔حامد میر کے انکشافات نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے امید ہے کہ وزیر اعظم آزادکشمیر آمدہ دنوں میں حامد میر کے مطالبے پر کھل کر بات کریں گے اور کشمیری عوام کوپانچ اگست2019 سے قبل ہونے والے اجلاس کی کہانی بھی سنائیں گے اور اپنی تجاویز بھی بیان کریںگے جوانہوں نے وہاں رکھی تھیں ۔ کشمیر ی قوم وزیر اعظم آزکشمیر سے سابق سفیر عبدالباسط کی تجویر اور حامد میر کی تقریر کے بعد ان کے جواب کی منتظر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں