آج کی بات…………..رحیم الدین نعیم

تما م تر اقدامات کے باوجود ہمارے ہاں کرپشن میں بتدریج اضافہ ہی ہو تا چلا جا رہا ہے۔ کوئی وعظ، کوئی نصیحت اور کوئی وباء اس کے خاتمہ یاکمی میں کارگر ہو تی نظر نہیں آ تی بلکہ یہ مصرع یہاں صادق آ تا ہے کہ ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “مگر اس کے باوجود کچھ حلقے مصر اور اس خوش فہمی میں کہ ماضی کی نسبت حالات بہتر ی کی طرف گامزن ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بد عنوانی ، جھوٹ اور اس سے جڑی معاشرتی برائیاں ہر مذہب اور ہر قو م کے ہاں مطعون مگر تما م تر کوششوں کے باوجود ہمارے سماج میں اس کا دائرہ کار پھیلتا اور اس کے اثرات گہرے ہو تے نظر آ تے ہیں کرپشن کے خلاف بڑے بڑے دعوے اور وعدے آ ج ہوا ہوتے نظر آ رہے ہیں بلکہ وزیر اعظم جس گند کو صاف کر نے نکلے تھے بد قسمتی کہ اُس کی بو پورے معاشرے میں پھیلتی محسوس کی جا رہی ہے۔ انتظامی مشینری مفلوج اور طاقتور مافیا ز نے تحریک انصاف کی حکومت کو جس طرح بے دست و پا کر رکھا ہے اُس کی مثال کم کم ہی ملتی ہے۔ منہ زور انتظامیہ کے سامنے حکومت کی ایک نہیں چل رہی ، قانون و آ ئین بد عنوان عناصر کو گرفت میں لا نے سے قاصر۔ حد تو یہ ہے کہ وزیر اعظم جس شعبہ میں اصلا ح کی بات کر تے ہیں اس ادارہ کا رویہ یکا یک تبدیل اور معاملات پہلے سے گھمبیر ہو جا تے ہیں۔ آ ٹا و شوگر بحران اور پٹرولیم کی مثالیں ہمارے سامنے کہ کس طرح مافیا ز نے حکومت کو چاروں شانے چت کر دیا۔ عمران خان پچاس لا کھ گھروں کا خواب دکھا کر اقتدار میں آ ئے اور چند ماہ قبل اس منصوبہ کو قابل عمل بنانے کے لیے اُنہوں نے اس سیکٹر کو مراعات دینے اور ایمنسٹی سکیم کا اعلا ن کیا۔ پاکستان کہ جہاں رئیل اسٹیٹ سیکٹر نے اس کے معاشی انڈکس کو بہتر بنا نے میں اہم کر دار ادا کیا ۔ اعداد و شمار بتا تے ہیں کہ ہمارے ہاں اس کا حجم 400 بلین ڈالر ز تک ہے اس حجم کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی وزیر اعظم کے ویژن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے ادارے ہی ہیں۔زمینی حقائق تو یہی بتا تے ہیں کہ اس سیکٹر سے وابستہ سرمایہ کاروں کو دونوں ہا تھوں سے لوٹنا ان کا پسندیدہ مشغلہ اور قوانین کے نام پر منصوبہ جات میں رکاوٹیں اور اُنکی منظوری میں سالہا سال تاخیر جہاں ایک طرف کرپشن کے فروغ کا سبب تو وہیں سرمایہ کاروں اور عوام کے اربوں دائو پر ۔ بالخصوص لاہور اور راولپنڈی / اسلام آ باد کہ جہاں اس سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے میں ادارے اپنی ذمہ داریاں ادا کر نے میں بوجوہ مجرمانہ کوتاہی کے مرتکب نظر آ تے ہیں ۔ ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز قوانین کو سہل بنا نے اورمعاملات کو تیزی سے نمٹانے کی بجائے منظوریوں کو سالہا سال تک موخر کر نا اپنی کارکردگی گردانتے ہیں۔ شاید وزیر اعظم کو اداروں کی ان چیرہ دستیوں کا علم نہیں یا وہ جان بوجھ کر ان مسائل سے نظریں چرا رہے ہیں۔ مگریہ حقیقت ہے کہ اداروں میں اصلا حات اور اہل، دیانت دار اور فعال بیوروکریسی کے بغیر وزیر اعظم کا خواب شرمند ہ تعبیر ہو تا نظر نہیں آ تا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں