ڈاکٹر انسان یا مسیحا!!——شاہد اعوان

”سو عظیم آدمی” کے مصنف مائیکل ہارٹ اپنی کتاب میں حضرت عیسیٰ سے متعلق لکھتا ہے ” حضرت یسوع مسیح غیر معمولی طور پر ایک متاثر کن شخصیت کے حامل تھے جس نے ان سے ملنے والوں پر انمٹ اور گہرے اثرات مرتب کیے وہ صحیح ترین معنوں میں ایک سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔” حضرت عیسیٰ کے پیروکاروں کو آج بھی ہم ”مسیح” کہہ کر پکارتے ہیں۔ پیغمبر حضرت عیسیٰ کو قدرت کی طرف سے مردوں کو زندہ اور بیماروں کو شفا دینے کا معجزہ عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر کو بھی عرفِ عام میں ‘مسیحا’ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے، موجودہ نفسا نفسی کے دور میں دولت و امارت کی دوڑ میں برسرپیکار کاروباری ڈاکٹر حضرات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے تاہم انسانیت کی فلاح و بہبود اور تندرستی کے لئے اپنا دن رات کا سکون قربان کرنے والے معالجین بھی کم نہیں ہیں۔ خیر اور شر کا مقابلہ ابتدا سے چلا آرہا ہے اور امید واثق ہونی چاہئے کہ جیت ہمیشہ خیر کی ہی ہوتی ہے۔ مال وزر اور دولت کے خزانے بھی وقت کی ضرورت ہیں لیکن بعض اوقات دکھیارے انسان کی دعا عرشِ معلی تک رسائی حاصل کر کے ڈاکٹر کو دنیا و آخرت کی بھلائی سے سرفراز کردیتی ہے ۔ پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک یہودی ماہر ڈاکٹر نے راستے میں دیکھا کہ لوگ ایک جنازہ اٹھائے جا رہے ہیں تو اس نے جنازے کو رکھنے کا اشارہ کیا اور مردے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، جب ڈاکٹر نے مرے ہوئے شخص کا بغور معائنہ کیا اور لوگوں سے ایک ڈنڈہ لانے کا کہا اور اسے مردے پر برسانے لگا ۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں مردہ اٹھ کر بیٹھ گیا جونہی جنازے کے شرکاء نے مردہ حرکت کرتے دیکھا تو حیرت اور خوف کے مارے ڈر کر بھاگنے لگے ۔ ڈاکٹر نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ شخص مرا نہیں تھا بلکہ اسے سکتہ ہوا تھا کیونکہ یہ شخص پیشاب کرتے وقت جسم کو ناپاک ہونے سے بچاتا نہیں تھا۔
اللہ کے خاص بندوں اور دکھی انسانیت کو عافیت پہنچانے والے معالجین کی کمی نہیں بلکہ ان کا تناسب زیادہ ہے وہ مریض کو صرف دیکھتے ہیں اور بیمار شفایاب ہو جاتا ہے نبض پر ہاتھ رکھتے ہی انسان کی آدھی بیماری شفا میں بدل جاتی ہے۔ اس پیشے کا تعلق ڈاکٹروں کی ذاتی خواہشات اور خیالات پر بھی منحصر ہے کہ وہ انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کہاں سے آجاتی ہے؟ میڈیکل سائنس اللہ کی ودیعت کردہ وہ تعلیم ہے جو بعض دفعہ ڈاکٹر کو الہامی طور پربھی عطا ہوتی ہے اور بیشتر پوری زندگی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں مگر ان کے ہاتھوں مریضوں کو شفایابی نہیں ملتی۔ فقیر کے ذاتی مشاہدے میں ایسے انسان دوست ڈاکٹرز کی فہرست ہے جن کے ہاتھوں میں اللہ نے شفا رکھ چھوڑی ہے ان میں ہمارے سکونتی شہر حسن ابدال کے ڈاکٹر بابر علی مرحوم کو آج بھی احترام سے یاد کیا جاتا ہے جو تھے تو صرف ایم بی بی ایس لیکن ان کا تجزیہ اور تجربہ ایسا حیرت انگیز تھا کہ مریض سے چند علامات پوچھ کر بناء ٹیسٹ مرض تشخیص کر دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر احسان الرشید جو آج کل واہ کینٹ میں اپنا پرائیویٹ ہسپتال چلا رہے ہیں اللہ نے ان کے ہاتھ میں خاص شفا رکھی ہے۔ نوجوان ڈاکٹروں میں ڈاکٹر بشریٰ کہوٹ جو میڈیکل سپیشلسٹ ہیں اور فقیر گزشتہ چار سالوں سے شوگر کے علاج کے لئے ان سے مشورہ کر رہا ہے ان کے ہاتھ میں اللہ نے وہ کمال رکھ دیا ہے کہ انسان دنوں میں شفایاب ہوجاتا ہے، سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی یہ خاتون ڈاکٹر جس جانفشانی اور ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں وہ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں بھی ممکن نہیں وہ کام کے دوران ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ہر مریض کو پوری توجہ اور تندہی سے دوا تجویز کرتی ہیں چار سال سے انہیں کسی مریض کو جھڑکتے نہیں سنا۔ بس وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی حقیقی معنوں میں ڈاکٹر ہیں غیر ضروری گفتگو اور دیگر سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہسپتال سے سب ڈاکٹر ، پیرامیڈیکل سٹاف اور مریض ان کی قدر اور بے پناہ احترام کرتے ہیں اور یہی وصف انہیں دیگر ڈاکٹروں سے ممتاز کرتا ہے۔ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر نعمان شوکت کا شمار بھی شہر کے ان گنے چنے نوجوان ڈاکٹروں میں ہوتا ہے جنہوں نے انتہائی مختصر عرصے میں اپنے پیشے کو خود پر ایسا طاری کیا ہے کہ ایک بار ان کے پاس آنے والا مریض کسی دوسرے معالج کے پاس جانے کا سوچتا ہی نہیں ۔ ہماری آبائی تحصیل تلہ گنگ میں ہمارے دوست ڈاکٹر صابر امیر ملک جو ٹمن میں ایک عرصے تک سرکاری ہسپتال میں بطور معالج خدمات دیتے رہے آج کل تلہ گنگ میں اپنا ذاتی ہسپتال چلا رہے ہیں لیکن ان کے پرانے مریض ان کے بغیر کسی سے علاج کرانے سے انکاری ہیں اور ڈاکٹر صابر بھی اپنے دیہاتی مریضوں کے عشق میں ایسے گرفتار ہیں کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر میں اپنا پرائیویٹ ہسپتال ہونے کے باوجود بطور خاص ٹمن میں کلینک کے لئے وقت نکالتے ہیں۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال حسن ابدال میں کئی ادوار سے بعض ایسے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ آتے رہے ہیں جن کے نقوش ہسپتال کے در و دیوار پر آج بھی ثبت ہیں ان میں ڈاکٹر جمال ناصر نے انقلابی انقدامات اٹھائے جبکہ ڈاکٹر آصف نیازی نے اپنے دورانیے میں ٹی ایچ کیو کو عوام الناس کے لئے آسانیاں پیدا کرنے اور سہولیات کی فراہمی کا ذریعہ بنایا۔ انہی روایات کو جاری رکھتے ہوئے موجودہ ایم ایس ڈاکٹر شہریار نے چند ماہ میں ہسپتال کے ہر شعبے کو ایسا فعال اور مستحکم بنا دیا ہے کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھتے ہیں، قومی و دیگر بین الاقوامی ایام منانے کا رواج بھی ان کے بہترین منتظم ہونے کا ثبوت ہے۔ اسی ہسپتال کے حال ہی میں ترقی پانے والے سینئر ہومیو ڈاکٹر راشد محمود ناصرف مریضوں کا میٹھی میٹھی گولیوں سے علاج کرتے ہیں بلکہ آنے والے مریضوں اور بچوں کو ٹافیاں بھی دیتے ہیں ان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ آنے والے ہر مریض کا استقبال کرتی ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ انسانیت کی خدمت سے سرشار ایسے تمام ڈاکٹروں کو دائمی خوشیوں سے سرفراز فرمائے جو مریضوں کے لئے مسیحائی کا باعث بن رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں