نجی سکیورٹی کمپنیاں ملازمین کا خون چوسنے لگیں، کم از کم اجرت کے احکامات ہوا میں اڑا دئے

اسلام آباد(سی این پی )جڑواں شہروں اسلام آباد راولپنڈی میں نجی سکیورٹی کمپنیاں ملازمین کا خون چوسنے لگیں،حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت کے احکامات ہوا میں اڑا دئیے،جان ہتھیلی پر رکھ کر شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کر نے والے سیکورٹی گارڈ دو وقت کی روٹی سے مجبور ہو گئے جبکہ سکیورٹی کمپنیاں مال بنانے میں مصروف دکھائی دیتی ہیں ،حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت نہ دینے والے اداروں کے خلاف قانون موجود تاہم عمل درآمد نہ ہو نے کے باعث 45 فیصد نجی کمپنیوں کے ملازمین کم از کم اجرت سے محروم ہیں. واضح رہے کہ حکومت نے بجٹ میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز دی ہے تاہم حکو متی ادارے اس پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہو چکے ہیں. ایک سروے کے مطابق ملک میں 66فیصد لوگ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کر تے ہیں جن کو ماہانہ 12 سے20 ہزار روپے دئیے جا رہے ہیں ایسے میں سیکڑوں نجی ادارے حکومتی احکامات کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں، سی این پی سروے کے دوران نجی سیکورٹی کمپنی کے گارڈ جن کو 12 گھنٹے ڈیوٹی کرنے کے عوض صرف 17000 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے کا کہنا تھا کہ 15 ہزار تو مکان کا کرایہ ہے، دس سے بارہ ہزار بجلی اور گیس کے بلوں میں چلا جاتا ہے اور کم سے کم راشن بھی لائیں تو دس سے بارہ ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں 17000 روپے میں کیسے گزارہ ہو سکتا ہے، ہماری تو زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ مجبور ہو کر دو دو نوکریاں کرنی پڑ رہی ہیں۔ عام دنوں میں تو حالات معمول پر چل رہے ہوتے ہیں لیکن اگر کہیں گھر میں کوئی بیمار پڑ جائے تو پھر بجٹ خراب ہو جاتا ہے .یو ٹیلٹی سٹور پر تعینات نجی سیکورٹی کمپنی کے ملازم کا حکومت کی جانب سے 32000 روپے اجرت کے سوال پر کہنا تھا کہ پاکستان میں اس سے قبل کون سے قانون پر عمل ہوا ہے غریبوں کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے. وزیر مشیر حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر غریبوں کی مجبوریاں کیا جانیں مہنگائی اس قدر ہو چکی ہے کہ 50 ہزار لینے والا بھی مشکل سے گزر بسر کر رہا ہے .جب ان سے تنخواہ بار ےدریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 12 گھنٹے ڈیوٹی دے کر 15 ہزار روپے ملتے ہیں تنخواہ بڑھنے کی بات کی جائے تو جواب ملتا ہے گزارہ نہیں تو نوکری چھوڑ دو ہم 12 گھنٹے نو کری کر نے کے بعد 15000 روپے لیتے ہیں جبکہ سٹور انتظامیہ سے 50 ہزار فی کس سیکورٹی کی مد میں ہماری کمپنی وصول کر رہی ہے. 15 ہزار میں تو دال سبزی خریدنا بھی مشکل ہوگیا ہے چکن کا تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ کبھی کبھار مہینے میں ایک مرتبہ اگر کبھی چکن کا تھوڑا سا گوشت لے آئیں تو الگ بات ہے ورنہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا کھا لیتے ہیں اور دوسرے وقت کا کھانا نہیں ہوتا اس حوالے سے نمائندہ سی این پی نے قانونی نکتہ نظر جاننے کے لیے قانونی ماہرین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور ریاستی دونوں قوانین کم از کم اجرت نہ دینے والے اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کا حق دیتے ہیں نہ صرف آپ اپنی غیر ادا شدہ اجرتیں وصول کر سکتے ہیں، بلکہ ہرجانے کے نقصانات بھی وصول کر سکتے ہیں ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ مزدوروں کی کم از کم اجرت دینے کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت نے 2013 میں ”مینیمم ویجز ایکٹ” کے نام سے ایک قانون پاس کیا تھا، جس کے تحت ایک ویج بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کے تحت مزدوروں کو کمپنی مالکان کی جانب سے لونگ الائونس دینے کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ ہر اس کارخانے کو، جو حکومت سے رجسٹرڈ ہے، مزدور کو ان کی کم از کم اجرت لازمی دینا ہوگا ورنہ قانون کے مطابق ان پر چھ مہینے قید کی سزا یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے. دوسری جانب ضلعی انتظامیہ سے کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد حوالے دریافت کی گیا تو انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اس کے لیے ایک طریقہ کار بنایا ہے، جس کے تحت تمام نجی کمپنیوں اور کارخانوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ مزدوروں کو کم از کم طے شدہ اجرت دیں جبکہ فیلڈ میں موجود افسران نجی کمپنیوں اور کارخانوں پر چیک رکھیں گے اور اس بات کو یقنی بنائیں گے کہ مزدوروں کو ان کی کم از کم ماہانہ اجرت ملتی ہو،تاہم انہوں نے بتایا کہ اس میں ایک مسئلہ مزدوروں کی طرف سے ہے کہ وہ خود نہیں بتاتے کہ ان کو کم اجرت مل رہی ہے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں انہیں نوکری سے نہ نکال دیا جائے لیکن ہم اپنی طرف سے کوشش کریں گے کہ مزدوروں کو ان کا حق مل سکے۔ اس حوالے سے جب نجی سکیورٹی کمپنی کے جنرل منیجر امجد سے مو قف جاننے کے لیے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا گیا تو ان سے بات نہ ہو سکی اگر اس حوالے سے جی ایم امجد یا کمپنی موقف دینا چاہے تو ادارہ شائع کر نے کا پا بند ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں