ماحولیاتی آلودگی نسلوں کی قاتل۔۔۔۔۔انیلہ محمود

اس میں کوئی شک نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں قدرتی نظام اور موسمیاتی تبدیلیوں پر پڑنے والے منفی اثرات ان مسائل میں سے ہیں جن پر توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ماحولیاتی تبدیلی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے ۔ماحولیاتی آلودگی کا مطلب ہے ماحول میں ٹھوس، گیسی یا مائع مادوں یا توانائی کی کسی بھی شکل جیسے حرارت، آواز اور جوہری تابکاری کا داخل ہونا، جس نے اسے صحت مند زندگی گزارنے کے لیے غیر محفوظ بنا دیا۔عالمی ادارے اس حوالے سے انتباہ کر رہے ہیں کہ جنوب ایشائی ممالک اور خاص طور پر ، پاکستان، ہندوستان، اور چین کو سموگ نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ ان ممالک کے کچھ شہروں کو سموگ ہر سال بری طرح متاثر کرتی ہے۔ لاہور، بیجنگ، اور دہلی کا شمار ان شہروں میں کیا جاتا ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ سموگ کی وجہ سے طبی مسائل کا شکار ہوتے ہیں جبکہ مستقبل میں اس میں سنگین اضافے کی توقع ہے۔ یوں ہمارے شہروں کا مستقبل صحت عامہ کے مسائل کے لحاظ سے ایک بڑے خطرے میں ہے۔ سانس کے امراض، پھیپھڑوں کی بیماریاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں کیونکہ ہم آلودہ بلکہ زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہیں، اگر ہم ارد گرد نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر صحت مند ہے کیونکہ موسم چاہے جیسا ہی کیوں نہ ہو گلے کی بیماریاں ، کھانسی اور نزلہ ایک معمول ہے۔ پھر سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں بچے یا بوڑھے یا پھر وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہیں، شامل نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں آنے والے بہت بڑے سیلاب میں 1,700 سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہو گئے جبکہ اس آفت نے مجموعی طور پر 33 ملین لوگوں کو متاثر کیا۔ ڈبلیو ایم او نے واضح کیا ہے کہ اس سیلاب سے مجموعی طو رپر 30 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا اور اکتوبر 2022 تک 8 ملین لوگ اندرون ملک بے گھر ہوئے دوسری جانب کراچی اور اسلام آباد میں شہری سیلاب اورشدید بارشیں، تو پنجاب کے شہروں میں دھند ہے، اور کہیں پینے کا پانی میسر نہیں۔ ان سب عوامل کے ساتھ آلودہ اور زہریلی ہوا سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ شہر کے شہراس کی لپیٹ میں ہیں ، اس میں سب سے زیادہ خطرناک آلودگی کے وہ ذرات ہیں جنہیں پی ایم 2.5 کہا جاتا ہے، یہ انتہائی باریک ہوتے ہیں اور ہم عام آنکھ سے ان کو نہیں دیکھ سکتے، بلکہ مائیکرواسکوپ سے اس کی موجودگی پتہ چلتی ہے اور یہ طویل فاصلے تک سفر کر سکتے ہیں، پھر شہروں میں صنعتی گیسوں کا اخراج، گاڑیوں کے دھویں کا اخراج اس صورتحال کو مزید پیچیدہ کرتا ہے۔ یہ وہ قاتل ہے جسے ہم دیکھ نہیں سکتے مگر اسکی نگرانی کے پیمانے لگا کر اپنی ہوا کے معیار کو ناپ سکتے ہیں اوراگلے مرحلے میں صورتحال کو بہتر بنانے پرکام کیا جاسکتا ہے۔سموگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ہر ملک اقدامات اٹھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی ادارہ صحت بھی کوشش کر رہا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہر سال دنیا بھر میں ستر لاکھ لوگ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سموگ ماحولیاتی آلودگی کا ایک جز ہے جس سے جلد از جلد نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ہمیں اپنے شہروں میں سرکاری سطح پر قابل اعتماد فضائی معیار کی نگرانی کے مربوط جال کو بچھانے اور اسے پائیدار انداز میں چلانے پرتوجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے حکومتی اداروں کو چاہیئے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھیں اورآلودگی کو کم کرنے کے لیے دیگرمعیارات اور فریم ورک قائم کرے۔ ساتھ ہی ہوا کے معیار کی نگرانی کرنے والے آلات نصب کریں، اس کے ساتھ ساتھ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کی دیگر ذرائع پر بھی توجہ کی جائے، جیسے کہ زیادہ درخت لگانا، پرانی گاڑیوں کو تبدیل کرنا اور بالخصوص کراچی اور لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی کو یقینی بنانا اور ساتھ ہی اس کے استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے مقامی لوگوں سے بات چیت کرنا اور انہیں اس کے استعمال پر آمادہ کرنا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں