موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلئے احساس ذمہ داری…..ملک عبدالجبار

موسم اور ماحول کا انسان کی زندگی پر خاصا اثر ہوتا ہے یہی وجہ ہے ماحول دوست توانائی،ایندھن،صنعت،ٹیکنالوجی سمیت اقدامات انسانی بقاء کے لئے انتہائی مفید ہیں، جدت اور ترقی کے اثرات جہاں انسانوں پر مرتب ہوئے ہیں وہیں ماحول پر بھی اسکے واضح اثرات نظر آتے ہیں،آبادی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ضروریات بھی بڑھیں جنہیں پورا کرنے کےلئے انسان نے ماحول کی حفاظت نہیں کی جسکی وجہ سے ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا،آج دنیا دھرتی ماں کے حوالے سے خاصی پریشان نظر آتی ہے،ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اپنے وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک محدود وسائل کیساتھ اس مسئلے کیساتھ نمٹنے میں ناکام ہیں،گزشتہ دو دھائیوں سے وطن عزیز کے باسیوں کو دہشگردی،بھوک،افلاس،ننگ سمیت معاشی ،معاشرتی اور سماجی مسائل کا سامنا رہا وہیں موسم کی تبدیلی بھی پریشانی کا سبب رہی،پسماندہ علاقوں کے مکینوں پر تو یکے بعد دیگرے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے کبھی زمین نے کروٹ لی تو متعدد بستیاں زمین بوس ہوگئیں قیامت صغریٰ بپا ہوئی ہر سو صف ماتم بچھ گیا تو کبھی بادل گرجے اور ایسے برسے کہ پانی کی بپھری لہروں نے خس و خاشاک کی طرح فصلیں بہائیں،مویشی ہلاک ہوئے غریب کی کٹیا اسکی آنکھوں کے سامنے آب برد ہو گئی اپنوں کی ابدی جدائی کا دکھ اسکے سوا تھا جسکا مرہم اسے کہیں نہ ملا نہ ہی ریاست سمیت کسی نے اسکے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی،حکومتی سطح پر نعرے بھی لگائے گئے، دعوے بھی ہوئے،سیلاب اور زلزلے سمیت قدرتی آفات پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ بھی ہوئی مگر عملی طور پر جو ہونا تھا وہ نہ ہوسکا،رواں برس سیلاب کی بے رحم لہروں نے پون ملک کو اپنی زد میں لیا،اس سے قبل چشم فلک نے وہ نظارے بھی دیکھے کہ جب کسی ایک شہر یا صوبے پر قدرتی آفت آئی تو وطن عزیز کے غیور عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی امداد میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر حالیہ سیلاب میں کشمیر،گلگت بلتستان،خیبر پختونخوا،پنجاب،سندھ اور بلوچستان کے متعدد اضلاع اور بستیاں متاثر ہوئیں،امداد لینے والے زیادہ اور دینے والے کم نظر آئے،بدقسمتی سے بین الاقوامی اور حکومتی سطح پر امداد اور بحالی کے اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے،شدید بارشوں اور سیلاب کی پیشگی اطلاعات کے باوجود جانی و مالی نقصان کی شرح میں کمی کے لئے ناکافی اقدامات لمحہ فکریہ ہیں،این ڈی ایم اے،ریسکیو ادارے اور صوبائی حکومتیں ناکافی وسائل کا رونا روتے نظر آئے،سیلاب نے کسانوں اور چھوٹے طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی،غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ کیا اورکم آمدن اور عام آدمی کے لئے مشکلات بڑھ گئیں،موسمیاتی تبدیلی اچانک نہیں ہوئی اسکی بھی پیشگی اطلاعات تھیں،تبدیلی سرکار نے سونامی بلین ٹری منصوبے کو متعارف کروایا ملک بھر میں شجر کاری دھوم دھام سے ہوئی میڈیا اور سوشل میڈیا پراعلیٰ کارکردگی کا جشن بھی منایا گیا،بلین ٹری منصوبے کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے مگر افسوس عمران خان نے پونے چار سالہ دور اقتدار میں وہ اہداف حاصل نہ کئے جنکے ملک امین اسلم دعویدار تھے،خیبر پختونخوا میں گزشتہ دو ادوار میں حکومت بھی تحریک انصاف کی تھی،اب بھی ہے،کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی تحریک انصاف برسر اقتدار ہے،بلین ٹری منصوبے کی ناکامی کی اہم وجہ یہ تھی پودے لگائے گئے مگر انکی نگہداشت نہ کی گئی پودے لگانے والے ٹھیکیداروں نے پودے لگائے ویڈیو بنائی پیسے لئے اور چلتے بنے صوبائی حکومتیں کاغذی کارروائی کرکے فائلوں کے پیٹ بھرتی رہیں ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ملکی بقاء کے ضامن منصوبوں پر روایتی انداز نہ اپنایا جائے اگر بلین ٹری منصوبے پر من و عن عملدرآمد ہوتا تو ہم موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوتے کیونکہ شجر کے موسم پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ماحول کے لئے بھی شجر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،حکومتی سطح پر شجر کاری کی مہمات چلائی جاتی ہیں جو عمومی طور پر فوٹو سیشن تک ہی محدود ہوتی ہیں سرکاری ادارے بھی خانہ پری کرتے نظر آتے ہیں اگر عوام شجر کاری کا بیڑا از خود اٹھائیں ایک پودا ہر شخص لگانے کا تہیہ کرے اور اسے درخت بننے تک اسکی آبیاری کرے تو ایک سال میں کروڑوں پودے لگا کر ماحول کو بہتر بناسکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلئے ہر شہری کو کمر کسنا ہوگی اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے شجر کاری مہم اپنی مدد آپ کے تحت چلانا ہوگی،آئیں آج عہد کرتے ہیں کہ ہم ایک شجر لگا کر اسے پروان چڑھائیں گے یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا آسان راستہ بھی یہی ہے اگر ہم اپنے حصے کا کام کرینگے تو آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں