طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح

نیلم وحید سائیکالوجسٹ (راولپنڈی)

دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے انسان کیلئے زندگی بھرپور طریقے سے گزارنے کے تمام آداب بہت تفصیل سے بیان کر دیے ہیں تاکہ تمام انسان اس سے بھرپور انداز سے مستفید ہو سکیں لہٰذا اسلام نے انسانی زندگی میں نکاح کو بنیادی حیثیت قرار دی ہے تاکہ خاندان اور انسانی نسل کی بقاء کا عمل جاری رہے، اخلاقی اقدار پامال نہ ہوں اور اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات کی خلاف ورزی نہ ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اسکا ایک جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دیئے۔” (النساء : 1)

ارشادِ نبوی ﷺ ہے: “نکاح میری سنت ہے اور جس نے میری سنت پہ عمل نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں۔” (ابن ماجہ)

ایک اور مقام پر ارشادِ نبوی ﷺ ہے: “جب بندہ نکاح کرلیتا ہے تو آدھا دین مکمل کر لیتا ہے، اب اسکو چاہئیے کہ نصف دین میں اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔” (الطبرانی الاوسط: 7643)

اسلام کے ان احکامات کو فراموش کرکے انسان اپنے لیئے، اپنے خاندان اور آنے والی نسلوں کیلئے تباہی کے اسباب اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہا ہے۔ نکاح جیسے مقدس بندھن کو ہنسی مذاق میں اڑا دینے والی معمولی شے سمجھ رکھا ہے بلخصوص پاکستان میں طلاق کی شرح حد سے تجاوز کر چکی ہے اگر اسکا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو موجودہ اور آنے والی نسلوں کا مستقبل تابناک ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
طلاق کے معنی ہیں “ترک کرنا” اور عام فہم میں خاوند اور بیوی کا ایک دوسرے سے ازدواجی رشتے کو ختم کر دینا۔

حدیثِ مبارکہ ﷺ ہے: “اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔” (ابو داؤد : 2177)

ارشادِ نبوی ﷺ ہے: “جو عورت بلاوجہ شوہر سے خلع لے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پاسکے گی۔” (جامع ترمذی)

طلاق کی اتنی شدید وعید اور ممانعت کے باوجود طلاق کی شرح اور طلاق کے مطالبات میں واضح اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ 2020 میں کراچی شہر کی عدالت میں3800 طلاق کے کیس درج کیے گئے۔ 2021 میں راولپنڈی شہر کی عدالت میں 10,312 کیس طلاق، نان و نفقہ اور خلع کے درج ہوئے۔ %58 لوگوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں طلاق کی شرح بڑھ چکی ہے۔ اسلامی ملک سعودی عرب میں ہر 7 گھنٹے بعد ایک طلاق ہو رہی ہے۔
طلاق کی شرح بڑھنے میں بہت سے عوامل کار فرما ہیں جن میں سے کچھ اہم کا ذکر ضروری ہے۔
عورت یا مرد کا غیر ذمہ دارانہ رویہ
اکثر اوقات دیکھنے میں آتا ہے جب لڑکا یا لڑکی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں، صحیح اور غلط کا فرق انہیں سمجھ نہیں آتا، لاپرواہ اور غیر سنجیدہ رویے کے مالک ہوتے ہیں اور سیدھے راستے سے بھٹک کر بری صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں تو والدین کے نزدیک شادی واحد حل ہوتا ہے اپنی بگڑی ہوئی اولاد کو راہ راست پر لانے کیلئے مگر درحقیقت یہ دو انسانوں کی زندگی سنوارنے کی بجائے دو لوگوں اور خاندانوں کیلئے تباہی کا باعث بنتی ہے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم اور گھریلو چپقلش
ہر 5 میں سے 2 لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ انکے سسرال والے انکی علیحدگی کے ذمہ دار ہیں۔ میاں بیوی کے معاملات میں بے جا مداخلت، سازشیں، شکوے شکایتیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، تہمت، الزام تراشیاں انکی طلاق کا سبب ہیں۔
عدم برداشت، غصہ اور تکرار
معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہو جانا، ایک دوسرے پر غصہ کرنا، عدم اعتماد اور بھروسے کی کمی، چیخنا چلانا، گالم گلوچ، بے رحمانہ تشدد، ذہنی اذیت، طنز و طعنے کسنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث ومباحثہ کرنا، بدتمیزی اور تلخ کلامی میاں بیوی کے رشتے کو کھوکھلا کر دیتے ہیں آخر کار نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال
عورت اور مرد کا موبائل فون کو بے تحاشا استعمال انکی ازدواجی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق “%71” لوگوں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت شریک حیات کے ساتھ گزارنے کی بجائے موبائل فون کے ساتھ گزارتے ہیں۔ جارحانہ گیمز کھیلنا اور جارحیت پسند فلمیں انکے ذہنوں، صحت اور رویوں پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اداکاراؤں سے موازنہ، مخالف صنف دوستوں سے غیر ازدواجی تعلقات استوار کرنا، عریانی و فحاشی والے ڈرامے فلمیں دیکھ کر حقیقی زندگی میں بھی اس سب کی امیدیں وابستہ کرنا اور پھر ان توقعات اور امیدوں کا خون ہو جانا میاں بیوی کو ایک دوسرے سے متنفر کر دیتا ہے۔ اسکے علاوہ رہی سہی کسر آجکل کے رومانوی ناول، افسانے، کہانیاں، فلمیں اور ڈرامے پوری کر رہے ہیں۔ لڑکا، لڑکی اپنے تصورات میں انہی کرداروں کو تخیل کرتے ہیں اور انہی کے خوابوں میں مدہوش رہتے ہوئے اپنے خیالوں کو پروان چڑھاتے ہیں اور حقیقت کی دنیا سے ناآشنا رہتے ہیں بلاآخر جب خیالات کی حسین وادیوں سے زندگی کی سچائی کی طرف آتے ہیں تو انکے خوابوں کا محل پاش پاش ہو جاتا ہے جو کہ بدقسمتی سے دو خاندانوں کی تباہی کے علاوہ معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا کر دیتا ہے۔
خاندانی اختلافات اور ذاتی مفادات
کچھ خوبصورت رشتے صرف اس وجہ سے ختم ہو جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ خاندان کے ذاتی فائدے جڑے ہوتے ہیں اور کچھ رشتے فضول اور بےبنیاد رسموں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جیسے کہ وٹہ سٹہ، ونی، سیاسی مفادات، جائیداد کی تقسیم خاندان سے باہر نہ ہو جائے اسی طرح کچھ خاندانوں کا اصول ہے کہ غیر برادری میں شادی نہیں کرنی چاہے اولاد کی خوشیوں کا خون ہو جائے، انہیں گھٹ گھٹ کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے یا انہیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا جائے۔ 17 مئی 2023ء کو بھان سعیدآباد (سندھ) سے تعلق رکھنے والی نورین فاطمہ مہر کو اپنی پسند کا شریک ہمسفر کی خواہش کرنے پر بے رحمانہ قتل کر دیا گیا۔ زبردستی خاندان میں ہی بے جوڑ شادی کروا دی جاتی ہے لیکن افسوس کہ اس رشتہ کو بہت گھسیٹنے کے باوجود بھی آخرکار وہ رشتہ دم توڑ جاتا ہے اورکچھ غلط فیصلوں کے نتیجے میں خاندان اور تعلقات بکھر جاتے ہیں۔
کم عمری اور زبردستی کی شادی
2021 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تحقیق تقریباً 220 لاکھ لوگ ایک دن میں زبردستی شادی کے بندھن میں باندھ دیئے جاتے ہیں۔
فورسڈ میرج یونٹ کی رپورٹ کے مطابق 251 کیس (%74) عورتیں اور 86 کیس (%26) مرد زبردستی شادی جیسے جرم کا شکار ہوئے۔
فورسڈ میرج یونٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زبردستی شادی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ 2021 میں 159 کیس (%47) پاکستان سے ہیں۔
انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق ہر 5 میں سے 1 لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔ 2020 میں نجی ادارے ساحل، اسلام آباد کی رپورٹ کے مطابق 119 کیس کم عمری میں شادی کے سامنے آئے جن میں %95 تعداد لڑکیوں اور %5 لڑکوں کی تھی۔
2022 میں یونیسیف کی تحقیق کے مطابق 19 ملین بچیوں کی کم عمری میں شادی ہوئی۔ یونائیٹڈ نیشنز کے محتاط اندازے کے مطابق 4.6 ملین لڑکیوں کی شادی 15 سال کی عمر سے کم ہوئ اور 8.19 ملین لڑکیوں کی شادی 18 سال سے کم عمر میں ہوئی۔
ہر منٹ میں 28 لڑکیوں کی شادی زبردستی کروائی جاتی ہے۔
مندرجہ بالا شماریاتی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ وجوہات شادی کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کم عمری میں بچوں پر بلخصوص لڑکیوں پر شوہر، سسرال، بچوں اور گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ انکے نازک کندھوں پر لاد دیا جاتا ہے۔ انہیں بچپن کے خوبصورت لمحات اور احساسات سے محروم کر دیا جاتا ہے، بنیادی تعلیم تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ انکی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی صحت کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے اور یہی وجوہات میاں بیوی کے درمیان دوری، اختلافات، چپقلش، لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنتے ہیں اور اسکے نتائج دونوں خاندانوں کو متاثر کرتے ہیں اور معاشرے کی بنیادوں کو بھی مسمار کرتے ہیں۔
عقل، شعور اور تعلیم کا فقدان
رشتہ ٹوٹنے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ دینی و دنیاوی تعلیم کی کمی، عورتوں کے بے بنیاد آزادی کے مطالبات، دنیاوی آسائشیں کی خواہش جو شوہر کی استطاعت سے باہر ہو۔ تیونس ملک میں شادی ایک گھنٹے میں ختم ہو گئی جب شادی کی تقریب کے فوراً بعد بیوی نے شوہر سے نئی گاڑی کا مطالبہ کیا، شوہر نے اسکا جواب دیا کہ وہ سوچے گا اس بارے میں۔ بیوی نے بولا تم مجھے گاڑی نہیں دلا سکتے تو طلاق دے دو، یوں شادی کا خوبصورت رشتہ جسے بنے ہوئے ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا بیوقوفی کی نظر ہوگیا۔ اسی طرح بنیادی طور طریقوں سے آگاہی نہ ہونا، دینی احکامات سے دوری، والدین کا جھجک اور شرم وحیاء کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کو ازدواجی زندگی کے حقائق سے آگاہ نہ کرنا، انکی تعلیم و تربیت اس انداز میں نہ کرنا کہ وہ اپنی شادی کو کیسے خوشگوار بنا سکتے ہیں۔
امریکی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طلاق ہونے کی 3 اہم وجوہات سامنے آئی ہیں
1۔ طلاق یافتہ لوگوں میں عقل، تعلیم اور شعور کی کمی ۔
2۔ میاں بیوی کے درمیان مالی تعلقات کا خراب ہونا۔
3۔ بے روزگاری
یہ وجوہات ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہونے کی بجائے سکون اور اطمینان چھین لیتی ہیں اور زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔
مس میچ افراد اور خاندان
شادیاں ٹوٹنے کی اہم وجہ خاندانوں کے مالی، سیاسی، سماجی، ثقافتی حالات، عقائد اور فرقوں میں فرق ہونا، تعلیمی قابلیت اور عہدے میں فرق، ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا، ایک دوسرے کی خوبیوں اور خامیوں میں نقص نکالنا اور دل سے تسلیم نہ کرنا۔
متفرق عوامل
ایک دوسرے کے ماضی کو کریدنا، غیر ازدواجی تعلقات قائم کرنا، بات چیت کی کمی اور اپنے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل نہ کرنا یہاں تک کہ اپنے رشتے کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا، نشے کی لت بھی ازدواجی زندگی کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اسکے علاوہ %80 تعلقات کے ختم ہونے کی وجہ پسند کی شادی ہے۔
میاں بیوی کا ایک دوسرے کو عزت و احترام نہ دینا، ایک دوسرے کے ساتھ معیاری وقت نہ گزارنا، بنیادی ضروریات کا خیال نہ رکھنا تعلقات کو آہستہ آہستہ توڑ پھوڑ کا شکار کرتا رہتا ہے بلاآخر دونوں اپنی ضروریات کسی دوسرے سے پوری کرنے لگتے ہیں اور دوسری شادی کا رحجان بڑھ جاتا ہے جو طلاق کا سبب بنتا ہے۔
الغرض بہت سے کئ اور عوامل قیمتی رشتے کو ختم کرنے کی وجہ بنتے ہیں جن کا اثر نہ صرف دو افراد پر ہوتا ہے بلکہ انکے بچے دربدر ہو جاتے ہیں اور ماں باپ کے پیار، توجہ اور شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ معاشرے پستی کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں، چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ ان عوامل کا سدباب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ دینی و دنیاوی تعلیمات سے روشناس کروانا، زندگی کے رنگ ڈھنگ سیکھنا، اولاد کی مرضی کو مدنظر رکھتے ہوئے انکی زندگیوں کے فیصلے کرنا، موازنہ سے گریز کرنا اور صبر و شکر کی خصوصیات کو اپناتے ہوئے اپنے شریک حیات کے ساتھ ہر لمحے کو پر مسرت انداز میں گزارنا، اسکی خوبیوں خامیوں سمیت قبول کرنا اور جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے رشتے کو ہر روز بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرنا کامیاب شادی کی ضمانت ہوسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں