فیکٹریاں لگائیں لیکن عوام اور ماحول کو نقصان نہ پہنچے: پشاور ہائی کورٹ

پشاور(سی این پی) عدالت نے نوشہرہ کے علاقے چراٹ سپین کانی میں سیمنٹ فیکٹری سے علاقے میں پانی کی کمی اور آلودگی بڑھنے پر محکمہ ماحولیات سے رپورٹ طلب کر لیا۔تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید نے سیمنٹ فیکٹری سے ماحولیات کو نقصان کے ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ فیکٹریاں لگانا اچھا ہے، اس سے علاقے میں ترقی آتی ہے، لیکن اس سے علاقے کے عوام کو مشکلات نہیں ہونے چاہئیں، فیکٹریز لگائیں لیکن عوام کو بھی سہولیات دیں تاکہ علاقہ مکین اور وہاں کھیتوں کو پانی کا مسئلہ نہ ہو۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل پانی کی کمی اور ماحول کو خطرات ہیں اور یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عدالت نے محکمہ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو ماہرین کی ٹیم کے ساتھ متعلقہ علاقے کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات ممتاز علی کو ہدایت کی کہ آپ جا کر وہاں دیکھیں کہ فیکٹری نے کتنے ٹیوب ویل لگائے ہیں، عوام کو کتنا پانی مل رہا ہے اور فیکٹری کتنا پانی استعمال کر رہی ہے، پھر عدالت کو رپورٹ پیش کریں۔درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیکٹری کے لیے پہاڑوں میں دھماکے کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پہاڑوں سے درخت ختم ہو رہے ہیں، علاقے کے پہاڑ جو پہلے درخت اور جھاڑیوں سے بھرے تھے اب بنجر ہو گئے ہیں، فیکٹری کے لیے جو گاڑیاں آتی ہیں ان کی وجہ سے حادثات ہو رہے ہیں، آلودگی کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں، علاقے کے نوجوان بے روزگار ہیں لیکن فیکٹری میں ان کو ملازمت نہیں دی جا رہی۔سیمنٹ فیکٹری کے وکیل اسحاق علی قاضی نے عدالت کو بتایا کہ پانی 12 کلو میٹر دور علاقے سے لایا جاتا ہے، یہ فیکٹری 1981 میں بنی ہے اس وقت وہاں پر کوئی آبادی نہیں تھی، بنجر زمین تھی یہ لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہیں، انھوں نے فیکٹری کی زمین پر گھر بنائے ہیں، اور فیکٹری میں 42 فی صد ملازمین اسی علاقے ہی کے مکین ہیں۔عدالت نے محکمہ ماحولیات کو علاقے کا دورہ کر کے پانی اور دیگر مسائل دیکھ کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں