ذہنی صحت اور انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹ کا اجراء

اسلام آباد(سی این پی)نیشنل کمیشن فار ہیو من رائٹس (این سی ایچ آر) نے تسکین ہیلتھ انیشیٹو (تسکین) کے اشراک اور یونائٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے دماغی صحت اور انسانی حقوق پر ایک مفصل رپورٹ جاری کی ہے ۔ اس رپورٹ کا مقصد دماغی صحت کی پالیسی ، قانون سازی، لائسنسنگ، اہلیت اور اخلاقیات پر مبنی ذہنی صحت کی خدمات کی فراہمی کے نظام میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرنا تھا تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دماغی صحت کو لے کر کی جانے والی پیشہ ورانہ بددیانتی کے بارے میں شعور اجاگر کیا جاسکے جس کے نتیجے میں ذہنی صحت کے مسائل میں مبتلا افراد کو کئی طرح کی پر یشانیو ں کا سامنا کرنا پڑ تاہے ۔
رپورٹ کے مندرجات کو حاضرین کے سامنے پیش کرتے ہوئے این سی ایچ آرکی چیئر پرسن رابعہ جویری آغا نے اس بارے گفت و شنید کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ہمیں ذہنی صحت کے موضوع کے حوالے سے معاشرے میں پھیلے غلط خیالات کا سدباب کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس طرح کے مسائل پر کھل کر اور بلا امتیاز بات کر نا ہو گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ذہنی صحت کے شعبے سے متعلق محدود قوانین و ضوابط کی بناء پر کوئی بھی شخص کسی جوابدہی کے بغیر ذہنی صحت سے متعلق مشاورت اور علاج کی پیشکش با آسانی کر سکتا ہے ۔ جو معاشرے کے کمزور طبقات کے استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال کے زمرے میں آتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ذہنی صحت کے شعبے کے بارے میں ضابطوں کی تشکیل اور اس میں پیشہ ورانہ اخلاقیات کا فروغ کرنا اشد ضروری ہے ۔
یواین ایف پی اے کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر بختیور قادروف نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا “جنسی تشدد کی روک تھام اور اس سے بچ جانے والوں کے حوالے سے تشکیل دئیے گئے پروگراموں میں ذہنی صحت اور نفسیاتی معاونت کو مرکزی مقام حاصل ہے ۔”
اگرچہ اس شعبے میں مقامی تحقیق کی کمی ہےمگر اندازاََ 18 سال سے زیادہ عمر کے 4 میں سے 1 پاکستانی کی دماغی صحت کسی نہ کسی موقع پرمتاثر ہوئی ہے ۔جن میں سے 80 فیصد سے زیادہ ذہنی صحت کی بحالی کی خدمات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے ۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے یہ تعداد ممکنہ طور پر کم رپورٹ کی گئی ہے کیونکہ دماغی صحت کے امراض سے منسلک معاشرے میں پھیلے خیالات اور عوام میں ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کی کمی کے سبب ان امراض کا علاج نہیں ہو پاتا ہے۔ مزید برآں دماغی بیماریوں کا بوجھ متاثرہ افراد کو اپنی صلاحیتوں کے استعمال سے روکتا ہے۔ ان کی پیداواری صلاحیت گھٹ جاتی ہے ۔اگر اس امر کا تخمینہ معاشی اثرات کے حوالے سے لگایا جائے تو قومی خزانے کیلئے یہ رقم 6.2 بلین امریکی ڈالر بنتی ہے ۔
تسکین کے سی ای او عرفان مصطفیٰ نے اس موقع پر کہا کہ ذہنی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے ساتھ ذہنی صحت کی بحالی کیلئے خدمات کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے سبب بعض اوقات نااہل افراد اپنے لئے راہیں تلاش کر رہے ہیں تا کہ وہ کمزور مریضوں سے فائدہ اٹھا تے ہوئے ان کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھیں ۔ اس صورتحال میں دماغی صحت کی خدمات کو با ضابطہ بنانے کے لیے پالیسیاں بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ذہنی امراض کے مریضوں کو صرف مستند ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد ہی مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
رپورٹ میں پانچ بڑے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اسمیں مو جود ٹھو س شواہد کی بنیاد پر مینٹل ہیلتھ پالیسی مر تب کر نے کیلئےسفارشات پیش کی گئیں ہیں ۔ جس میں عوامی بیداری میں اضافہ؛ قانون سازی کے اقدامات؛ ذہنی صحت کے لائسنس دینے والے ادارے؛ دماغی صحت کے ریگولیٹری حکام؛ اور دیگر مو ضوعات کے ہرپہلو کے بارے میں بتا یا گیاہے۔ یہ سفارشات نفسیات، صحت کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت عامہ کے شعبوں کے ماہرین کی مشاورت سے تیار کی گئی ہیں ۔ یہ سفارشات صارف کے تحفظات اور تجربات پر زور دیتیں ہیں تاکہ معاشرے کے کمزور لوگوں کے لیے اعلیٰ ترین نگہداشت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس رپورٹ کے تفصیلی جائزے کے بعد اسے دماغی صحت کے شعبے میں موجود اسٹیک ہولڈرز نے مستند قرار دیا ہے ۔
اس موقع پر قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال اور رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز کی جانب سے رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات کی پُر زور حمایت کی گئی جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ نےانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کو فروغ دینے میں عدلیہ کے بھر پور کر دار ادا کر نے کی یقین دہانی بھی کروائی ۔
چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا نے اپنے تقریب کااختتام مینٹل ہیلتھ بل کا مسودہ تشکیل دینے کے اعلان کے ساتھ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بل اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس 2001 کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ صوبائی ذہنی صحت کے ایکٹ کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کرے گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ابتر ذہنی صحت جیسی نہ نظر آنے والی کمزوریاں پاکستان میں ترقی اور انسانی حقوق کے لیے سب سے زیادہ نظر انداز کئے جانے والےمسائل میں سے ایک ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں