اپوزیشن کا اجلاس، کرونا اور عوام

لگتا ہےاس قوم کا کرونا کچھ نہیں بگاڑ سکتااور اسے ہاتھ جوڑ کر یہاں سے ایک دن بھاگنا ہی پڑے گا۔ یہ تخمینہ ہم نے میڈیا یا اخباری رپورٹس سے نہیں لگایا، کیونکہ کرونا تو بحرحال ایک حقیقت ہے، ہم اس سے ڈرے ہوئے اور محتاط بھی ہیں اور آج کا کالم بھی ماسک چڑھا کر لکھا جا رہا ہے لیکن میرا یہ خیال اس وقت پختہ سے پختہ تر ہوا جب میں نے کرونا جیسی عفریت سے نبرد آزما ہونے کیلئے عوام کے غم میں گھلنے والی سیاسی جماعتوں کے حالیہ بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں اپنے محبوب ممبران قومی و سینٹ کی تین چار دنوں کی مسلسل تقاریر اور رات گئے برپا کئے جانے والے ٹاک شوز میں بحث مباحثوں سے لگایا۔ سب سے پہلے تو ان حالات میں جب پوری دنیا کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں،  لاکھوں افراد جان سے جا چکے ہیں،  بڑی بڑی معاشی پاورز   کا کچومر نکل چکا ہے تو اپوزیشن کے دونوں ایوانوں کے اجلاس بلانے پر پہلے پہل تو بڑا عجیب سالگا، پھر سوچا ہو سکتا ہے جیسے یہ سارے  عوامی نمائندے بھی اس گھمبیر صورتحال پر خاصے پریشان ہیں اور  اکھٹے ہو کر قوم کے سامنے ایک دوسرے کی طرف دست تعاون بڑھا کر  کم از کم اس وباء سے نپٹنے کی کوئی اچھی اور متفقہ رائے یا تجاویز دیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوم کے پیسوں پر منعقدہ اس بے مقصد اجلاس کے دوران تقریبا ہر ایک ممبر نے سخت مایوس کیا۔  کرونا کے خوف یا حالات کی سنجیدگی کا روز اول سے فقدان رہا اور جب حکومتی موقف جو آخیر میں کچھ سیاسی ہو چکا تھا کے جواب میں اپوزیشن کے ایک بڑے قد آور لیڈر جو سابقہ وزیر اعظم رہ چکے ہیں نے اپنی  لمبی چوڑی بے تکی اور بے معنی تقریر کو سارا وقت محض ہنسی مذاق بنائے رکھا اور اس افسردہ ماحول میں دیکھا گیا کہ انکی اپنی ہنسی رک نہیں پا رہی تھی، وہی بے جا تنقید اور اپنی خودنمائ اور الزامات کا دفاع۔ اکثر پارٹی قائدینبشمول لیڈر آف دی ہاوس تو ایوان میں  آئے  ہی نہیں اور جو آئے بھی تو وہی اپنی اپنی خوشامد اور دوسرے کو نیچا دکھانے کا مکروہ کھیل کھیل کر یہ جا وہ جا۔  اپوزیشن کے ایک صاحب جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ساری تقریر میں اپنے کوٹ کا بٹن کبھی کھولتے کبھی بند کرتے اور وہی پرانا رٹا رٹایا بھاشن جھاڑتے  اور مسلسل تنقید کے نشتر چلاتے رہے۔ لب لباب یہ ہے کہ سب بڑے بڑے لیڈر اپنے قول و فعل سے چھوٹےچھوٹےبونے ثابت ہوئے اور چند غیر معروف ممبران ان سے بہت اچھا بول گئے جن میں ایک سابقہ وزیر اعلی کے پی قابل ذکر ہیں ۔ پوری اپوزیشن کا اس دفعہ کا چناؤ لفظ ۔۔۔کنفیوز۔۔ تھا۔ شروع شروع میں کئ ماہ  انکا ۔۔ایکا۔۔ وزیراعظم کے خلاف  لفظ ۔سلیکٹڈ۔ رہا جس پر کسی نے توجہ نہ دی اور وہ ۔۔شاہکار۔۔ جب اپنی موت آپ مر گیا  تو پھر انہوں نے  عمران خان  کو ۔۔وزیر اعظم۔۔  مان کر تعاون کی پیشکشیں بڑھانا شروع کر دیں اور جب وہ ہاتھ بھی جھٹک دئے گئے تو اب اس جان لیوا وباء کے ماحول میں پوائنٹ سکورنگ کیلئے  آجکل لفظ  ۔۔کنفیوز۔۔ چنا گیا ہے، اور ایک بات کی اپوزیشن کو ضرور داد دینی پڑتی ہے کہ یہ سب پرانے گھاگ قسم کے کھلاڑی ہیں، ان میں اکثریت بڑے بڑے منجھے ہوئے کاریگر سیاسی پنڈتوں کی ہےاور یہ جس کے پیچھے پڑ جائیں، چاہے کرونا ہی کیوں نہ ہو،  اپنی کارکردگی دکھا  کر  ہی چھوڑتے ہیں ۔ آپ ان کے ہر ممبر کی تقریر سنیں سب نے بار بار حکومت کو ۔۔کنفیوز۔۔ کہا  بار  بار  اور قوم کے ذہنوں پر اس لفظ کے اتنے ہتھوڑے برسائے کہ پوری قوم ہی  کرونا بھول کر۔۔کنفیوز۔۔ ہو کر رہ گئ۔   “سچ” بے چارہ  دور کہیں گہری کھائی میں جا گرا، عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان میں سچا کون ہے اور اگر سچ پوچھیں تو اس آفت زدہ ماحول میں اتنی ۔۔بھونڈی سیاست۔۔ سے عام آدمی کا ایمان ہی اٹھتا نظر آ رہا ہے۔ اگر لیڈر آف اپوزیشن نے ۔۔ضد۔۔ کر کے تمام تر مخالفت کے باجود خود تشریف نہ لا کر اسمبلی میں یہی ڈرامہ لگوانا تھا تو  بتائیں کہ پہلے سے مقروض عوام کے کندھوں پر کروڑوں کا یہ خرچہ کہاں کا انصاف ہے۔ اگر کوئی اچھی رائے یا تجاویز دینے کی بجائے یہی۔۔ تو تو میں میں۔۔ ہی کروانی تھی تو۔۔ اپوزیشن لیڈر۔۔ اسکا جواب دینا پسند فرمائیں گے کہ قوم کا اتنا قیمتی وقت اور پیسہ  کیوں اور کس خوشی میں ضائع کیا گیا۔ نتیجہ ہمارے عوامی نمائندوں نے بھی کرونا کے کسی خطرے کو کوئی خاص اہمیت دی اسی لیئے اس لمبے چوڑے اجلاس کا کرونا کے خلاف عوام کا کوئی فائدہ ہوا نہ ہی اس پر اسکے موثر سد باب کی کوئی معقول یا قابل عمل کوئی تجویز سامنے آسکی۔  ؟؟؟ 

اس رائے کو قائم کرنے میں دوسری بڑی عام وجہ پبلک کے  پر زور اصرار اور پبلک ہی کی تکالیف کے ازالے کے لیے حکومت کا لاک ڈاون میں نرمی کے بعد عوام  اور خصوصا خواتین کی بازاروں اور مارکیٹوں پر چڑھائی کے مناظر ۔ حرام ہو اتنے جم غفیر اور ان میں اکثر یت کا بغیر احتیاطی تدابیر کے کسی کو بھی کرونا جیسے موذی مرض سے ذرا برابر بھی ڈر یا خوف کا احساس ہو،  بازار کیا کھلے، لوگوں نےجیسے یلغار ہی کر دی اور ان حالات میں  کرونا نے کان پکڑ کر یہاں سے بھاگنے ہی میں عافیت جانی ہو گی۔ حکومت جس عوام کی روزی روٹی کی فکر میں گھلی جا رہی تھی، نرمی ہوتے ہی کسی نے آٹے، روٹی،  روزگار کی بات نہیں کی، سب نے کپڑوں، جوتوں اور الیکٹرانک کی دوکانوں پر ھلہ بول دیا، جس سے صاف لگ رہا تھا کہ کرونا نہیں کرونا کا باپ بھی اس قوم کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ میر نے کیا خوب کہا تھا

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا،

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔  

   

اپنا تبصرہ بھیجیں