پرعزم انسان کا راستہ——– محمد بلال عباسی

ایک دفعہ ایک بھینسا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے آوازیں نکالنےلگا،بھینسے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا.جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ بھینسا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے.وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں.یہ سوچ کر اس نے اپنےاپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا،سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
بھینسا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوااس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی کچھ ہی لمحے بعد بھینسا بالکل خاموش سا ہو گیا.جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب بھینسے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہےیہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا،کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور بھینسا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا.یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے.زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے،ہماری کردار کشی کی جائے،ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے،ہمیں طعن و تشنیع کا نشان بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے.زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یاان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں-خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں