ایف اے ٹی ایف عالمی قوتوں کا پوشیدہ’ڈومور سیاسی‘ ہتھیار قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

پاکستان کے خلاف فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کے پلیٹ فارم کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، بعض ممالک کی جانب سے مملکت کے خلاف منظم پروپیگنڈا مہم ان تحفظات کو یقینی بنارہی ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے لئے منصوبہ بندی اور ایک ایسی فضا بنانے کی سازش کی جاتی ہے جس میں ریاست کی جانب سے انتہا پسندی، دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو پس منظر میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ پاکستان اس دباؤ کی وجوہ کو سمجھتا ہے اس لئے بلیک لسٹ سے بچاؤ کے لئے عالمی ادارے کے ’ڈومور‘ کا توڑ کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔واضح رہے کہ دنیا کی کوئی ایسی مملکت نہیں جس میں دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کرنے والے عناصر موجود نہ ہوں، لیکن پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کے لئے مختلف پلیٹ فارمز کو ریاست پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کرنے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ پیرس اکتوبر 2019اجلاس میں پاکستان کو فروری 2020تک مہلت دی گئی تھی تاہم کرونا صورتحال کی وجہ سے غیر معینہ مدت اگلا اجلاس ملتوی ہوا اور پاکستان کو مزید مہلت ملی کیونکہ عالمی سطح پر کرونا کی بدترین صورتحال کی وجہ سے اجلاس کی تاریخ بڑھا دی گئی تھی۔پاکستان نے 19اگست کو باقی ماندہ13سفارشات پر جامع رپورٹ میامی میں جمع کرادی ہے جس پر فیصلہ اکتوبر2020 کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
پاکستان نے کرونا صورتحال سے نمٹنے کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کو موخر نہیں کیا بلکہ اپوزیشن و حزب اقتدار میں شدید اختلافات کے باوجود قومی ایشو پر اتفاق رائے پیدا ہوا اور سینیٹ اور قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر یونائیٹڈ نیشن سیکورٹی ترمیمی بل اورانٹی ٹیریزازم ترمیمی بل کو ایف اے ٹی ایف کی پیشگی شرائط کے طور منظوری دے دی۔ مشترکہ آئینی معاونت (فوجداری معاملات)کا بل بھی اپوزیشن کی تجاویز منظور کرکے پاس کرلیا گیا۔ توقع یہی کی جا رہی تھی کہ زیر التوا قانون سازی کے بعد ایف اے ٹی ایف اپنے اطمینان کا اظہار کرے گی کیونکہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مالی سہولت کاری کے مقدمات کی کاروائی میں بھی تیزی دکھائی جا رہی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست نے اُن کمزوریوں کو دور کرنے کی سنجیدہ کوششوں کو بڑھا دیا ہے جس کا مطالبہ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے کیا گیا تھا اور پاکستان کو مہلت ملی تھی۔چھتیس ممالک پر مشتمل ایف اے ٹی ایف کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ملک کا نام بلیک لسٹ میں نہ ڈالنے کے لیے کم از کم بھی تین ممالک کی حمایت لازمی ہے۔ پاکستان کی حمایت چین،ترکی اور ملائشیا نے کی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل نہ کیا جاسکا۔
گوجرانوالہ کی انسداد دہشتگردی عدالت نے القاعدہ سے مبینہ تعلق رکھنے والے سبھی 5 دہشتگردوں کو دہشتگردی کی مالی معاونت اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے جرم میں 16،16 سال کی قید سزا سنائی ہے۔ایک دوسرے مقدمے میں انسداد دہشتگردی عدالت نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے برادر نسبتی حافظ عبدالرحمن مکی اور ان کی تنظیم سے تعلق رکھنے والے دیگر تین افراد پر مبینہ دہشتگرد عناصر کی مالی امداد کے لئے فرد جرم عائد کردی ہے۔ 2019 میں پنجاب کے انسداد دہشتگردی ادارے نے حافظ سعید اور جماعت الدعوۃ کے چند دیگر رہنماؤں کے خلاف صوبے بھر میں (لاہور، ملتان، فیصل آباد، ساہیوال اور سرگودھا) میں 23 ایف آئی آرز درج کی۔ رواں سال جون کے مہینے میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی بہت سی شرائط پہ عمل در آمد کرلیا ہے اور ان کی وزارت نے کالعدم جماعتوں کی 976 قابل انتقال و ناقابل انتقال جائیدادوں کو حکومتی تحویل میں لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سکولز، کالجز، ہسپتال، ڈسپنسریاں، ایمبولینسسز جو کہ کالعدم تنظیموں کی ملکیت تھیں انہیں بھی حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔
وزرات داخلہ کی جانب سے مبینہ الزامات سے قطع نظر حکومتی پالیسی سازوں کو اس معیار کو مملکت میں قانون کی شفافیت برقرار رکھنے کے لئے بیرونی دباؤ کو نظر انداز کرنا ہوگا، کیونکہ انتہا پسندی نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا شکار خطے کے دیگر ممالک نہیں ہوئے، منی لانڈرنگ و انتہا پسندوں کو دہشت گردی کے لئے فنڈنگ کے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن رد الفساد کے تحت کاروائیاں پہلے بھی کی جا رہی تھی تاہم دونوں ایوانوں میں قانون سازی کے بعد ضرورت اس اَمر کی ہوجاتی ہے کہ جو قانونی کاروائی ہو اس سے یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ مخصوص دباؤ کے تحت مخصوص شخصیات کے خلاف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
چین نے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان پر بڑھتے دباؤ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا کہ ادارے کو مملکت کے خلاف سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، چین نے اس عملکو ناپسند کرتے ہوئے چین کے ایشیائی امور کے پالیسی ساز محکمے کے ڈائریکٹر جنرل یاووین کا کہنا تھا”کہ پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی چند رکن ممالک کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ایف اے ٹی ایف کے چند ممبر ممالک پاکستان مخالف سیاسی ایجنڈا رکھتے ہیں لیکن چین ہر قسم کے سیاسی ایجنڈے کی مخالفت کرتا ہے۔یاووین کا کہنا تھا کہ چین امریکا اور بھارت کو اپنے دوٹوک موقف سے آگاہ بھی کرچکا ہے، ایف اے ٹی ایف کسی ملک کو بلیک لسٹ کرنے کے لئے نہیں بنا بلکہ اس کا مقصد دہشتگردوں کی پشت پناہی کے معاملات پر ممالک کی مدد کرنا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کارروائیاں قابل تعریف ہیں اور چین پاکستان کے نظام کی بہتری کیلئے تکنیکی و سیاسی مدد کرتارہے گا“۔
تجاویز سامنے آئی ہیں کہ ایک ایسی مرکزی اتھارٹی قائم ہو جس میں وزارت داخلہ، وزارت قانون و انصاف، وزارت خارجہ کے سیکرٹریز، چاروں صوبائی ہوم سیکرٹریز،اسیکوئشن اتھارٹی، این جی اوز، نگران اتھارٹی، ٹیکس و ریونیو اتھارٹی،رئیل اسٹیٹ ادارے اور رجسٹریز کو شامل کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے وفاقی سیکرٹری کو کنویئر مقرر کیا جائے۔ ایف اے ٹی ایف بھی چھوٹے پلیٹ فارم کے بجائے بڑی فورم کا تقاضا کرتا ہے تاکہ دہشت گرد عناصر کو مالی سہولیات فراہم کرنے والی تنظیموں و شخصیات پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔ ایف اے ٹی ایف کے ساتھ 14اہم ادارے، جن میں مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ اور نیکٹا معاونت کرتے ہیں، تاہم اس حوالے سے ایسے خدشات بھی سامنے آتے ہیں کہ عالمی قوانین کوسیاسی فوائد کے لئے مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ 2014 اور فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 نے قانون نافذ کرنے والوں کو مزید مضبوط کیا لیکن اس پر بعض عناصر کی جانب سے سیاسی استعمال کئے جانے پر تنقید بھی ہوئی۔ آج تک انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور فئیر ٹرائل ایکٹ اور2013 پرویکیشن آف پاکستان ایکٹ 2014 میں دو درجن کے لگ بھگ ترامیم ہو چکی ہیں، اس سلسلے کی آخری کڑی دہشت گرد عناصر کے مقدمات کی جلد کاروائی کے لیئے فوجی اداروں کا قیام تھا۔
اپوزیشن جماعتیں عالمی اداروں کی تشفی و تحفظات دور کرنے کی آڑ میں ایسے قوانین کو منظور کرانے میں رکاؤٹ بن چکی ہیں، جن کی منظوری کے بعد خدشات تھے کہ انہیں سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا، ریاست کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان ا س وقت جن معاشی مشکلات کا مقابلہ کررہا ے اس کے لئے ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ایسے سازگار ماحول میسر ہو، جس بنا پر پابندیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مملکت کو جو نقصان پہنچ چکا ہے، اس کے مضمرات کو جلد ازجلد سبک رفتاری سے دور کیا جاسکے۔ منی لانڈرنگ صرف دہشت گردی کے سہولت کاری کے لئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ اس سے ترقی پزیر مملکت سمیت ترقی یافتہ ممالک کو بھی شدید مالی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بنا پر منی لانڈرنگ کے خلاف سخت قوانین بنانا وقت کی بھی اہم ضرورت ہے۔مملکت کے نظام و انصرام کو مثبت تاثر دینے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ عملی طور پر گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے موثر اقدامات کو ریاستی حفاظت کے تناظر میں مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے، تاہم ڈومور کی نئی شکل سے نمٹنے کے لئے عالمی قوتو ں کے مطالبات کے دباؤ کو روکنے کے لئے تمام اداروں کا ایک صفحے پر آنا سب کے حق میں بہتر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں