سچ کا عظیم شہید… راجہ فرقان احمد

پارٹنن اور ایتھنہ کے مجسمے کے سامنے ایک پورا شہر آباد تھا اور اس کے سامنے دوسری اونچائی پر جہاں سے یہ صاف نظر آتے تھے ایک مجسمہ ساز کا بیٹا اپنے آپ سے سوال کرتا تھا کہ کوئی مجسمہ شہر کی حفاظت کیسے کرسکتا ہے؟ بہت سارے سوالات اس کے ذہن میں پڑ گئے جسکا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا. ان سوالات نے اسے زہر کے پیالے تک پہنچایا یہ سقراط تھا، سچ کا عظیم شہید، سقراط اپنے والد کو نوکیلے اور تیز اوزاروں سے پتھروں کو چھینتے دیکھا کرتا تھا. ان اوزاروں سے پتھر کو شیر کی شبیہہ تشکیل دی جاتی. پتھروں سے خوبصورت شکلوں کی ظاہری شکل نے اسے حیرت میں ڈال دیا. ایک بار جب اس نے اپنے والد سے پوچھا کہ اس نے شکل بنانے کے لئے مناسب اوزار کا انتخاب کس طرح کیا اور کتنا اور کہاں ہتھوڑا ایک خاص شکل پیدا کرسکتا ہے. مصروف والد نے اس سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا “آپ کے بڑے ہونے پر میں آپ کو سب بتا دوں گا”. لیکن سقراط کہاں پیچھے رہنے والا تھا سو اس نے ضد کی اور پوچھنے لگا. والد نے کہا، “اس کےلئے آپ کو پتھر کے اندر شیر کا تصور کرنے کی ضرورت ہے،شیرپنجرے میں بند ہے اور آپ نے اسے آزاد کرانا ہے۔ اب آپ پتھر کے اندر شیر کو بہتر دیکھیں گے. صحیح قسم کے ٹولز اور مطلوبہ ہتھوڑا استعمال کرنے میں آپ کا احساس مضبوط ہوگا. اس سے شیر آزاد ہوگا”. اس جواب نے سقراط کو بہت متاثر کیا. اپنے والد کے جوابات سے سقراط کو یہ معلوم ہوا کہ چیزیں اصل میں پوشیدہ ہوتی ہیں یہ ہم ہیں کہ انہیں آزاد کروانا چاہیں یا نہ کروائیں ورنہ یہ چیزیں ہمیشہ لاعلمی کے گہرے پردوں میں چھپی رہتی ہے.
دوسروں کی طرح سقراط کی ماں بھی سقراط کو رات کے وقت دیوتائو ں اور دیویوں کی داستانیں سناتی تھی. سقراط کو سوال پوچھنے کی عادت تھی لہذا اس نے ان کہانیوں پر بھی نکتہ اٹھایا. دیوتائو ں اور دیویوں کے بارے میں سوالات پر والدہ نے انہیں ان کے قابل احترام مقام کا ذکر کرتے ہوئے خاموش کرا دیتی لیکن سقراط سوال پوچھنے کا مجسم تھا. وہ یہ سمجھنے میں ناکام تھا کہ اگر دیوتااور دیویاں اتنے بلند رتبے والے لوگ ہیں تو وہ پھر عام انسانوں کی طرح نفرت کیوں کرتے ہیں، حسد کیوں کرتے ہیں، غصے اور عام لوگوں کی طرح لڑتے کیوں ہیں. وہ لوگوں کو کیوں سزا دیتے ہیں اور ان پر ظلم برپا کیوں کرتے ہیں؟
سقراط یونان کا عظیم فلسفی تھا. سقراط کو قدیم دور کا سب سے بڑا فلسفی خیال کیا جاتا ہے. سقراط کی زیادہ تر معلومات اس کے شاگرد افلاطون سے ملی ہے. افلاطون ارسطو کا استاد تھا. ارسطو اپنے دور کا بہترین فلسفی اور استاد جس نے سکندر اعظم کی تدریس کی ذمہ داری نبھائی.
سقراط کی برداشت اور صبر کا اندازہ اس کی بیوی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی بیوی بد زبان اور بد اخلاقی کی وجہ سے پورے ایتھنز میں مشہور تھی. وہ شاگردوں کی موجودگی میں بھی چرب زبانی اور کبھی کبھی تو ہاتھ اٹھانے سے بھی گریز نہ کرتی. سکراط دنیا میں موجود چیزوں پر سوالات اٹھاتا اور حقیقت کی تلاش میں نکل پڑتا. انہی سوالات کے جواب حاصل کرنے کی جستجو میں وہ عدالت تک آ پہنچا.
ایتھنز کی جانب سے سقراط پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ دیوتائو ں کا احترام نہیں کرتا، نوجوانوں کو ورغلاتا ہے. سقراط نے اپنی صفائی میں لافانی دلائل پیش کئے جو تاریخ کا حصہ ہے لیکن نہ تو اپنی جان کی بھیک مانگی بلکہ اپنے لیے موت کی سزا خود تجویز کی. زہر کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگا کر دنیا کے لیے ایک مثال قائم کی.
سقراط کی زندگی کا جائزہ لیں تو وہ سچ کی کھوج میں مگن رہا اور جواب کی تلاش میں زندگی گنوا بیٹھا لیکن کیا ہمارے اس معاشرے میں سوال کرنے کی اجازت میسر ہے. کیا ہم لوگ سوال کرنے اور سچ بولنے کی جسارت رکھتے ہیں. اگر ہم معاشرے میں بہتری لانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے معاشرے پر سوالات اٹھانے ہوں گے تاکہ کوئی بہتری لا سکیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں