وفا—-مریم شریف اعوان

تحریر: مریم شریف اعوان

وفا

شہزادے نے غلام کو پانی لانے کو کہا۔۔ تو چھوٹے شہزادے نے اصرار کیا کہ آقا کے لیے پانی میں لاؤں گا۔وہ بڑے بھائی کو محبت و احترام میں آقا کہہ کر پکارا کرتے۔۔حالانکہ وہ ایک ماں کی اولاد نہ تھے پر چھوٹا شہزادہ تو گویا اپنے آقا سے محبت کے لیے ہی دنیا میں آیا تھا۔۔ آقا مسکرا دیے۔۔ مسکراہٹ بہت گہری اور خوبصورت تھی اور چھوٹے شہزادے کو لگتا تھا کہ وہ ایک اشارے پر اس مسکراہٹ پر اور مسکرانے والے پر کئی جانیں لے بھی سکتے ہیں اور اپنی جان دے بھی سکتے ہیں۔۔ بہرطور وہ بھائی کے لیے پانی لینے گئے اور واپسی پر جب وہ محبت سے پانی کی کٹوری اپنے ننھے چمکتے ہوئے ہاتھوں میں تھامے بھائی کی خدمت کی سرشاری میں چلے آرہے تھے تو معلوم نہیں کیسے ٹھوکر لگی اور کٹوری ہاتھ سے لڑھک گئی اور پانی آقا کے قریب پہنچ کر بھی ان تک نہ پہنچ پایا۔۔ چھوٹے شہزادے کا مارے بے بسی اور رنج کے برا حال ہو گیا اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے کہ پانی کی کیا وقعت تھی کی آقا نہ پی سکے۔۔ آقا نے مسکرا کر بہت سمجھایا مگر وہاں تو رنج چاند جیسے چہرے پر جم گیا تھا۔۔ جیسے مستقبل کی کسی گہری کروٹ کی جانب پیشین گوئی کر رہا تھا۔۔
یہ عرب کا ایک قدیم شہر تھا۔۔ یہاں شہزادوں کو بچپن ہی سے گھڑ سواری، تلوار بازی، بہادری، وفا داری جیسے درس دیے جاتے تھے اور شہزادے اپنے فن میں ماہر تھے۔۔ چھوٹے شہزادے کو اپنے جوہر دکھانے کا بے حد شوق تھا اور اسکے پیارے آقا کو مستقبل کا جیسے علم تھا اور وہ چھوٹے شہزادے کی اس طبیعت پر بڑی محبت سے گہری سانس لیے جاتے۔ چھوٹا بھائی نایاب گوہر تھا وہ اسے گنوا نہیں سکتے تھے۔۔ آج تک عرب اور اس کے ہمسایہ ممالک میں یہی بات سنی جاتی تھی کہ چھوٹا شہزادہ ایک جنگ میں باپ کی زرہ پہن کر باپ کے انداز میں لڑا تھا اور جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا تھا۔۔ اور یہ واقعہ اصل جنگ سے زیادہ زبان زد عام تھا۔۔ بڑی بڑی فوجوں کے سپہ سالار اس کے نام سے لرزنے لگے تھے پر چھوٹا شہزادہ اپنے عظیم بابا جان کی یہ بات سن کر حیران رہ جاتا کہ وہ اسے ایک بڑے محاذ کے لیے تیار کر رہے ہیں ۔۔ اور وہ سوچتا کہ میرا یہ انتظار کب ختم ہوگا۔۔
سوتے جاگتے وہ اسی وقت کے لیے اپنے وجود میں کشمکش محسوس کرتا تھا۔۔
بابا جان کہتے تھے کہ ابھی نہیں لڑنا جب بڑے بھائی اجازت دیں گے تب لڑنا ہے ۔۔ اور انکے ساتھ ہی لڑنا ہے۔۔
وقت گزرتا رہا۔۔ بابا جان چلے گئے۔۔ سب سے بڑے بھیا بھی چلے گئے۔۔ آقا ہر صدمے کو صبر سے سہتے گئے۔۔ گہرے سے گہرا مسکراتے گئے ۔۔ چھوٹے شہزادے کی بے چینی کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔۔اسکے حسن کا جوبن اپنی پوری آب و تاب پر تھا۔۔ چاند بنتا جا رہا تھا۔۔ بنا کسی داغ کے چاند۔۔ آقا ہر وقت ذکر کرتے تھے۔۔ اپنے رب کا ۔۔
ایک دن اطلاع ملی کہ رب کا دشمن اقتدار چاہتا ہے تاکہ رب کے دین کو سبوتاژ کر سکے۔۔ آقا بے چین ہو گئے۔۔ سب کو تیار کیا۔۔ شہزادی آپا جان بھی تیار ہو گئیں۔
شہرِ اقتدار سے آقا کے نام پیغامات کا تانتا بندھ گیا۔۔ کہ آکر اس ظالم کی خبر لیجیے۔۔ ہمیں اس سے بچائیں۔۔ ہم اپکا ساتھ ہیں۔۔
آقا اپنے اہل خانہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔۔ عرب سے نکلے ۔۔ شہزادی آپا جان کو چھوٹے شہزادے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ہمیں موت کا کوئی خوف نہیں وہ بخوبی اس کی شجاعت سے واقف تھیں۔۔ چھوٹے شہزادے کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب بہادری کے جوہر دکھانے کا وقت تھا۔۔ خون اس کی ایک ایک رگ میں گرم تھا۔۔ اس کا چاند نما چہرہ دمک رہا تھا۔۔ ابھی یہ مسافر منزل سے دور ہی تھے کہ خبر ملی کہ پہلے ملنے والے پیغامات محض جھوٹ تھے۔۔
آقا بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور واپسی کی راہ لی۔ ایک دریا کے کنارے دشمن نے انہیں روک کر محدود کر دیا تھا۔۔
آقا کو بے بس کرنے کی چال تھی اور چھوٹے شہزادے سے یہ سب سہا نہ جا رہا تھا۔۔
خیمے لگ چکے تھے۔۔ وہ آقا کے خیمے میں آئے۔۔ اور لڑائی کی اجازت چاہی۔ آقا بہت پیار سے بولے کہ ہم لڑنے نہیں آئے۔۔
حیرت یہ تھی کہ دریا کا کنارہ ہونے کے باوجود وہ سیراب زمین نہ تھی۔۔ بالکہ دور دور تک محض بے کار سی ریت تھی۔
درجہء حرارت ریت کی وجہ سے بڑھ رہا تھا۔۔
دشمن جنگ کی غلطی بھول کر بھی نہیں کر رہا تھا کیونکہ چھوٹے شہزادے کی دلیری اور تلواروں کے جواہر کے قصے انکی نیندیں حرام کیے ہوئے تھے۔ اور ایک دوسرے سے کہے جاتے کہ اگروہ میدان میں آگیا تو ہم سب کی روحیں فنا ہو جائیں گی۔
چھوٹے شہزادے کو سپہ سالاری کا منصب دے دیا گیا تھا۔۔ قافلے کا جھنڈا آقا نے اس کے حوالے کر دیا تھا اور اسے پابند کیا تھا کہ کسی صورت لڑائی کا اغاز نہ کرے۔ اور شہزادہ آقا سے وفاداری کے سوا کچھ نہیں کر پا رہا تھا کہ تلوار اور دل دونوں مچل رہے تھے پر آقا کی بات نہ ماننے کا سوال ہی نہ تھا۔۔ یہ جانثاری کا تقاضاتھا کی جی آقا کہہ دیا جائے۔ علم کی بھرپور شان سے حفاظت کی جارہی تھی
دشمن کےسپاہیوں کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ نہ جانے ایسا کیا تھا کہ نہ وہ محصور قافلے کو قتل کر پا رہے تھے نہ انکی زندگی سہہ پا رہے تھے۔۔
انہوں نے جنگی حکمتِ عملی کے تحت قافلے پر پانی بند کر دیا۔۔
پیاس سے قافلے میں موجود سب لوگ بالخصوص بچے تڑپنے لگے تھے۔۔ آقا کی بیٹی اپنے پسندیدہ اور محبوب چھوٹے چچا کے پاس آئی اور کہا کہ پانی کا انتظام کیجیے۔ پانی کی شکل دیکھے ہوئے تین دن ہونے کو آئے تھے۔۔ بھتیجی کی بات شہزادے کو تڑپا گئی تھی۔ سرفروشی نے پھر سر اٹھایا۔۔وہ جلدی سے آقا کے پاس آئے اور عرض کی کہ مجھے اجازت دیں پانی لانا ہے۔۔ بچوں کو پیاسا مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ ۔ آقا نے دھیمے سے نظر اٹھائی اور کہا جاؤ اپنی آپا سے اجازت لو۔۔جو انکا حکم وہی میری رضا۔
شہزادہ اپنی آپا جان کی خدمت میں حاظر ہوا اور عرضی ڈال دی۔
آپا نے اپنے لاڈلے بھائی کو بھاری دل کے ساتھ اجازت دے دی۔
شہزادے کو تو گویا اپنا مقصد مل گیا تھا۔ مشک اٹھائی گھوڑے کی لگام کھینچ کر سوار ہو گیا ۔۔
دشمن کو دور سے ہی خبر مل گئی تھی کہ وہ آرہا ہے ۔۔ایک سناٹا چھا گیا تھا خوف کا۔۔ شہزادہ انکی صفوں کو تہس نہس کرتا پانی تک آگیا۔
ہاتھ کا چلو بنا کر پانی بھرا اور خشک ہونٹوں تک لایا ہی تھا کہ معا” آقا کی پیاس کا خیال آگیا۔ پانی دریا کو واپس کر دیا اور مشک بھرنے لگا۔۔ بھر کے واپس گھوڑے کی طرف بڑھا اور خیموں کی جانب چل دیا۔
اب سپاہیوں میں کہاں جرأت تھی لیکن پانی لے جانے دینا انکی شکست تھی اور یہ انہیں منظور نہ تھا۔ اس لیے شہزادے پر چاروں طرف سے حملہ آور ہو گئے ۔۔ نیزے برچھیاں تلواریں تیر لے کر اس کے درپے ہو گئے۔۔ شہزادے کو تین دن سے نقاہت تو تھی پر اسے لگا کہ یہی وقت ہے بھائی کے لیے لڑنے کا ۔۔ پر اس نے سوچا کہ یہ صرف بہادری کا نہیں وفا داری کا بھی امتحان ہے۔ وہ کمال مہارت سے تلوار چلانے لگا۔۔ نہ جانے یہ خون کا جوش تھا یا بھائی کا عشق ۔۔ لڑتے لڑتے اس کے دائیں بازو پر وار کیا گیا۔۔ بازو کندھے سے الگ ہو گیا۔۔ شہزادے نے علم تھاما کہ علم گر جاتا تو آقا سے نظریں ملانا ناممکن تھا۔ وہ آقا کی عزت تھا۔۔ علم سنبھالا۔۔ آگے بڑھ کر کٹے ہوئے بازو کے شکنجے سے تلوار نکالی اور پھر سے دشمن کے سپاہی کٹ کٹ کر گرنے لگے۔۔ شہزادہ اکیلا ان سینکڑوں پے بھاری تھا ۔۔ بپھرے ہوئے شیر کی مانند واپر وار کر رہا تھا کہ اچانک ایک ضرب لگی اور بایاں بازو بھی شہزادے کے جسم سے الگ کردیا گیا۔۔ پر درد کا احساس نہیں ہو رہا تھا ایک ہی دھن سوار تھی کہ بچوں کے لیے پانی لے جا سکوں۔ اور علم کبھی نہ جھکے۔۔ علم اور مشک کو دانتوں میں جکڑ کر خیموں کے رخ پر بھاگنے لگا۔۔ علم کا جھکنا گوارا نہ تھا۔۔ وفاداری کا تقاضا تھا کہ جان چلی جائے پر آقا کا دیا ہوا علم سر نگوں نہ ہو۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔۔ کہ اچانک کہیں سے ایک تیر آکر آنکھ میں پیوست ہو گیا۔۔ ایک دم منظر خون ہو گیا۔۔ شہزادے کے قدم وہیں ریت پر جم گئے ۔۔ دور آپا جان اور آقا جان دیکھ رہے تھے۔ مشک کب کی لڑھک گئی تھی۔ پانی اور خون ریت پر پھول بنا رہا تھا۔۔ پر علم ابھی تک سربلند تھا۔۔ وفا کی داستان کہہ رہا تھا کہ آقا میں تھامنے کی سکت کے بغیر بھی آپ کی امانت کو تھام سکتا ہوں۔۔ آقا بھاگتے ہوئے آئے اور اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔۔ بہت سا خون آقا کے کپڑوں میں جذب ہونے لگا۔۔ آقا بہت دکھی دل سے اسے سنبھالنے لگے تو وہ بولا مجھے معاف کر دیجیے۔۔ میں پانی نہیں لا سکا ورنہ کہ پانی کی کیا وقعت تھی کی آقا نہ پی سکے۔۔ شہزادہ بے حد شرمندہ تھا اور آقا کے آنسو اب نہیں تھم رہے تھے۔۔اور شہزادہ کہے جا رہا تھا کہ اب میری لاش کو خیموں کی جانب نہ لے جائیں۔ میں آپا کا سامنا کیسے کروں گا۔۔آقا اپنی ازلی محبت سے سہلاتے رہے۔۔ چند لحظہ بعد زخموں سے بہت سا خون نکل جانے کے بعد شہزادہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔۔ آقا نے آنسوؤں کی بہتی ہوئی لڑی اور بوجھل دل کے ساتھ شہزادے کی آنکھیں بند کی اور ایک جملہ فرما کر بھائی کی تڑپ کو سکون میں بدل دیا اور اس کی والہانہ محبت کا حق ادا کر دیا ۔۔ فرمایا: “اے عباس ع۔۔!! اب حسین ع کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں