رانی بھابھی کی پہل!!!شاہد اعوان

18جنوری 2021ء کو باقی دنوں کی نسبت دھند اور سردی معمول سے کچھ زیادہ تھی، موٹروے برہان انٹرچینج پر پہنچا تو وہ شدید دھند کے باعث ٹریفک کے لئے بند تھی۔ خیال تھا کہ اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان سب سے پہلے پہنچ کر اپنے مربی و محسن جبار مرزا کو ان کی اہلیہ کی اچانک وفات کا پرسہ دوں گا مگر جی ٹی روڈ پر ٹریفک کے اژدھام نے میری یہ خواہش پوری نہ ہونے دی تاہم نماز جنازہ سے قبل وہاں پہنچ گیا۔ جبارمرزا روایتی سفید شلوار قمیض اور برائون کوٹ میں ملبوس جنازے میں شریک احباب کے ساتھ بظاہر تن کر کھڑے اپنے اندر کی اداسی کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ گویا:
اَکھاں دی لالی پئی دَسدی اے روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں
تعزیت کے لئے ان کے گلے لگا تو ہمیشہ کی طرح شفقت فرمائی۔ شاعروں ادیبوں کی بہار تھی مگر سب چہروں پر خزاں کی سی اداسی چھائی تھی، مرزا صاحب کا بیٹا شہریار ماں کے سرہانے غم و یاس کی تصویر بنا کھڑا تھا:
شالا نہ مَرے ماں کسے دی !!
ابھی گزشتہ ماہ ہی تو جبارمرزا کی صاحبزادی کی تقریبِ رخصتی تھی بھابھی تندرست و توانا تھیں مگر اجل سے کس کو رستگاری ہے بھلا؟؟؟
دنیا میں عورت کا وجود بادل کی ردا، بلبل کی نوا، چقماق کی سختی، شراب کی مستی، شہد کی مٹھاس، سمندر کی پیاس، پربت کی بلندی کی طرح ہے غرض عورت کہکشاں کے حسنِ بیکراں اور خلوص و محبت کی داستان کانام ہے ۔ مغربی مفکر باربولڈ کہتا ہے: عورت مصیبت و غم کو کم کرنے کے لئے پیدا کی گئی ۔ تھیلز کے خیال میں ایک حسین اور باعصمت خاتون خدائے قدوس کی صفتِ کاملہ کا نمونہ، فرشتوں کی حقیقی شان و شوکت کانادر معجزہ اور دنیا کی عجیب ترین چیز ہے۔ ملٹن کائنات کے مشاہدے کے بعد پکار اٹھتا ہے کہ عورت سب سے اچھا اور سب سے آخری آسمانی صحیفہ ہے۔
یاد آجاتا ہے مجھے اندازِ خرام اس کا
جب کبھی لوگ کریں آبِ رواں کی باتیں
ہمیں آج بات کرنی ہے جبار مرزا کی باوفا اہلیہ اور ہماری بھابھی ”رانی” کی جو اب منوں مٹی اوڑھ کر اسلام آباد کے ایچ الیون قبرستان میں سکون کی نیند سو چکی ہیں ۔ ہماری مرحومہ کے ساتھ شناسائی جبار مرزا کی شہرہ آفاق آب بیتی ”پہل اُس نے کی تھی” سے ہوئی وہ جبار مرزا کی ناکام محبت کے بعد ان کی زندگی کا حصہ بنیں انہوں نے جان و دل سے جبار مرزا پر اپنی محبتیں نچھاور کیں ان سے ان کے ہاں بچے تولد ہوئے یوں یہ ایک مثالی گھرانہ تھا جن کی رفاقت کا دورانیہ 38سال پر محیط رہا۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے، دنیا میں دو خواتین ایسی ہیں جو مرد کے تمام عیبوں سے آگاہ ہوتی ہیں پہلی ماں جو بچپن سے لڑکپن تک اور دوسری بیوی جو باقی ماندہ زندگی مرد کی اچھائیوں برائیوں کی چشم دید گواہ ہوتی ہے۔۔۔ شاید ہی کوئی مرد ایسا ہو جو اپنی بیوی سے اپنے راز چھپانے میں کامیاب ہوا ہو اور ہمارے جبار مرزا تو ویسے ہی کچھ چھپانے کے قائل نہیں۔ ان کے قریبی دوست ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ان کی ذات پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے ”جبار مرزا کی تحریر کی کاٹ ایسی ہے کہ وہ قلم کو تلور کر لیتے ہیں۔ ” آگے چل کر مزید لکھتے ہیں ”جبار مرزا کا یہ ذاتی المیہ ہی نہیں بلکہ ایک معاشرتی سانحہ بھی ہے محبت کی دلفریب وادی سے بہت سے لوگ گزرتے ہیں جبار مرزا کی بیگم رانی بھابھی سے میری کئی ملاقاتیں ہیں ان سے پوچھتا ہوں کہ رانی کے ہوتے ہوئے جبار مرزا کو چوہدرانی یاد کیوں آئی؟” خود جبار مرزا اپنی خود نوشت میں رقم طراز ہیں ”چوہدرانی مجھے زندگی کی حقیقتوں سے آگاہ کر گئی ہے اور رانی انہی راستوں پر مجھے لیے لیے پھر رہی ہے، یاد چوہدرانی کی بھی زندہ ہے اور ساتھ رانی کا بھی مضبوط ہے۔” بھابھی رانی مرحومہ کہتی ہیں ”جبارمرزا بہت اچھے شوہر ہیں بالکل مائوں کی طرح خیال رکھتے ہیں وہ انتہائی قابلِ بھروسہ انسان ہیں لیکن ان کی شخصیت میں بہت سے ناقابلِ فہم تضادات بھی موجود ہیں اُن کا آخری جملہ ”پہل اُس نے کی تھی” چلیں مان لیتے ہیں۔”
پھر ڈاکٹر صاحب کا مرزا صاحب سے یہ استدلال ”رانی بھابھی کی موجودگی میں چوہدرانی یاد کیوں آئی؟” توجہ طلب ہے اور جس کی وضاحت کرتے ہوئے جبار مرزا کا یہ جملہ ”یاد چوہدرانی کی بھی زندہ ہے اور رانی بھی مجھے انہی راہوں پر لے کر چل رہی ہے” خود ایک اعتراف ہے۔
مرد اگر رقیب کو پسند نہیں کرتا تو یہی دستور عورت کے ہاں بھی پایا جاتا ہے وہ اپنی زندگی میں اپنے مرد کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی نہ وجود کی شکل میں نہ ہی یاد کی شکل میں۔۔۔ شاید یہی کرب اور دُکھ بھابھی رانی مرحومہ کی زندگی کا روگ بن گیا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اس روگ کو پالتے پالتے انصاف مانگنے اپنے رب کے حضور جا پہنچیں۔ وہ ایک وضع دار اور اپنے شوہر پر جان دینے والی باوفا خاتون تھیں، شکوہ تو وہ اللہ کے حضور بھی نہیں کریں گی البتہ وہ اس بات کی ضد ضرور کریں گی کہ دائمی زندگی میں بھی انہیں جبارمرزا ہی کا ساتھ نصیب ہو۔۔۔ انہوں نے موت کو گلے لگا کر یہ ثابت کیا کہ وہ بھی ”پہل” کرنے والوںکی فہرست میں اپنا نام رقم کرانا چاہتی تھیں۔ بابا غلام فرید فرماتے ہیں:
روندیں عمر نبھائی، یار دی خبر نہ کائی
بھاگ، سہاگ، سنگھار و نجائم، دلوں وساریا ماہی

اپنا تبصرہ بھیجیں