سیاسی قائدین اور نظریاتی کارکنان

آزادکشمیر میں سیاسی میدان سجنے کا موسم آ چکا ہے۔اب چاروں اطراف سے سیاسی قائدین کی زبان پر یہی الفاظ تسلسل کے ساتھ دہرائے جائیں گے کہ ”مخلص ، نظریاتی اور دیرینہ کارکنا ن ہی جماعت کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ جماعت کی کامیابی میں اِن کا مثبت اور کلیدی رول ہوتاہے۔جماعت کی کامیابی اور برسراقتدار آنے کے بعد اِن کا خاص خیال رکھا جائے گااور اِن کی عزت ِ نفس کو کسی صورت ، کسی طور مجروح نہ ہونے دیا جائے گا۔وغیرہ وغیرہ”
لیکن افسوس صد افسوس! جماعت کی کامیابی اور برسراقتدار آنے کے بعد اِن مخلص،نظریاتی اوردیرینہ کارکنان کو نہ صرف بُری طرح Ignore کیاجاتا ہے بلکہ اِن کی عزت ِ نفس کو بھی مجروح کیاجاتا ہے اور جو کارکنان فصلی بٹیرے ہونے کا تجربہ رکھتے ہیں،جن کے پاس بڑی سے بڑی سفارش ہوتی ہے،جو خوشامدی ہونے کا بھی تجربہ رکھتے ہیں وہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔اِس کے برعکس جو مخلص،نظریاتی اور دیرینہ کارکنان ہوتے ہیں وہ الیکشن کے دوران اپنا کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ہر طرح کی مشکلات،مسائل کو برداشت کر کے جماعت اور جماعت کے قائدین کی کامیابی کو یقینی بنانے میں اپنا اہم ، مثبت اور کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔کامیابی کے بعد جب یہ قائدین اِن کو بھلا دیتے ہیں تو یہ بہت مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ کر خاموش ہو جاتے ہیں لیکن جماعت کی بہتری اور کامیابی کے لئے اِن کا دِل دھڑکتا رہتا ہے۔وقت گزرتا رہتا ہے ۔ ایک بار پھر وقت آ جاتا ہے کہ اِن مخلص، نظریاتی اور دیرینہ کارکنوں کی تعریفیں شروع ہو جاتی ہیں۔ماضی قریب میں جھانک کر دیکھا جائے تو پانچ سال قبل جب اِسی طرح کے الفاظ سیاسی قائدین کی طرف سے مخلص، نظریاتی اور دیرینہ کارکنان کے لئے بولے جاتے تھے اور اِن کارکنان کی انتھک محنت ، لگن اور جدوجہد سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد اِن سیاسی قائدین نے اِن کارکنان کو بُری طرح مایوس کیااورمن پسند لوگوں کو ترجیح دیتے رہے۔اب کی بار اِن کا یہ بیانہ ، یہ چال ، یہ روِش ، یہ طریقہ ، یہ بول ، یہ انداز اور یہ عمل کسی صورت کامیاب نہ ہو گا۔کارکنان اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اِن قائدین کے قول و فعل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔یہ صرف اپنے فائدے کے لئے ہرانداز اپنا لیتے ہیں۔ اندر سے اِن مخلص، نظریاتی اور دیرینہ کارکنان کے خیر خواہ نہ ہیں۔ یہ قائدین جماعت کے منشور پر عمل نہ کرتے ہیں۔اِن کا عمل ، اِن کا راستہ، اِن کی منزل صرف اور صرف کامیابی ہے۔وہ اُصول ، ضابطہ اخلاق کی پرواہ نہ کرتے ہیں۔اگر جماعت کے قائدین جماعت کے منشور پر خلوص ِ نیت سے عمل کرتے تو سب سے پہلے اِن کو کامیابی دلانے والے یہ کارکنان مایوس نہ ہوتے جو کارکنان وسائل رکھتے ہیں اور منزل پر پہنچنے کے راستے جانتے ہیں وہ اب آسانی سے اپنے اپنے راستوں پر چل رہے ہیں لیکن مخلص ، نظریاتی اور دیرینہ کارکنان ایسا نہ کر سکتے ہیں۔مایوسی اور بددلی کے ساتھ نم نظروں سے یہ سیاسی تماشا دیکھ رہے ہیں۔جماعت اور جماعت کے قائدین کے ساتھ بغاوت تو نہ کر سکتے ہیں لیکن بار بار پگڈنڈی اور دلدل میں جانے سے بہتر ہے کہ خاموش رہ کر کنارے پر بیٹھ کر اِس سیاسی موسم کو سیاسی انداز میں انجوائے کریں، جو کچھ اور جس طرح اِن قائدین نے یہ سیاسی فصل اپنے عمل سے لگائی تھی اب اِس کو خود ہی اپنے ہاتھوں سے کاٹیں گے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا سربراہ اور دیگر قائدین جماعت خلوص نیت کے ساتھ جماعت کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مخلص، نظریاتی اور دیرینہ کارکنان کے ساتھ کی گئی زیادتی پرشرمندہ ہو کر معذرت کریں اور اُن کو اعتماد میں لے کر سیاسی میدان میں اُتریں ۔اِسی میں اِن کی اور جماعت کی اجتماعی کامیابی کے ساتھ ساتھ مخلص، نظریاتی اور دیرینہ کارکنان کی کامیابی وابستہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں