پگڈنڈیاں———–پروفیسرڈاکٹررابعہ تبسم

برکت کے لفظی معنی زیادتی کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف آیت نمبر96 میں فرمایا”اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور نافرمانی سے پرہیز کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے”۔مراد یہ ہے کہ ہر طرح کی بھلائی ہر طرف سے ان کے لئے کھول دیتے ، آسمان سے پانی ضروت کے مطابق وقت پر برستا، زمین سے ہر چیزخواہش کے مطابق پیدا ہوتی، پھر ان چیزوں سے نفع اُٹھانے اور راحت حاصل کرنے کے سامان جمع کر دئے جاتے کہ کوئی پریشانی اور فکر لاحق نہ ہوتی۔ ہر چیز میں برکت یعنی زیادتی ہو جاتی ۔
برکت کا ظہور دنیا میں دو طرح سے ہوتا ہے کبھی تو اصل چیز مقدار میں بڑھ جاتی ہے جیسا کہ نبی پاکۖ کے ہاتھ سے پانی کے چھوٹے سے برتن سے سارے قافلے کا جی بھرکر پانی پینا اور تھوڑے سے کھانے سے شکم سیر ہونا۔اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر کسی چیز کی مقدار میں کوئی زیادتی نہیں ہوتی مگر وہ دگنا چوگنا کام آئی ۔یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ گھر کا کوئی سامان ، برتن یا کپڑا وغیرہ ایسا مبارک ہوتا ہے کہ آدمی اس سے عمر بھر راحت اُٹھاتا ہے اور وہ پھر بھی قائم رہتا ہے، اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ بناتے ہی ٹوٹ جاتی ہیں یا سالم بھی رہیں تو اُن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا یا بہت کم نفع حاصل ہوتا ہے۔اور یہ برکت انسان کی جان، مال،کام اور وقت میں بھی ہوتی ہے۔ بعض اوقات محض ایک لقمہ انسان کی قوت و صحت کا سبب بن جاتا ہے اور بعض مرتبہ بڑی طاقتور غذا اور دوا کام نہیںآتی۔اسی طرح کچھ وقت برکت والے ہوتے ہیںیعنی ایک گھنٹے میں اتنے کام ہو جاتے ہیں کہ دوسرے اوقات میں چار گھنٹوں میں بھی نہ ہوں۔ ان سب صورتوں میں نہ مال بڑھا ہے نہ وقت مگر برکت کا ظہور اس طرح ہوا کہ اس سے بہت کام نکلے۔
پس واضح ہوا کہ زمین و آسمان کی کل مخلوقات و موجودات کی برکات ایمان و تقویٰ پر منحصر ہیں۔آدمی ان کو اختیار کرے گا تو آخرت کی فلاح تو پائے گا ہی دنیا کی فلاح و برکات بھی حاصل ہوں گی۔ایمان و تقویٰ کو چھوڑے گا تو ان کی برکات سے بھی محروم ہو جائے گا۔
ذرا آج کی دنیا پہ نظر ڈالتے ہیںہر طرف اشیائے خورو نوش کی فراوانی ہے استعمال کی اشیا کی بھر مار ہے نئی نئی ایجادات نے تمدن ہی بدل دئے ہیں،مگر اس سب کچھ کے باوجود آج کا انسان سخت پریشان، تنگ دست،اور بیمار ہے، آرام وراحت اور امن و اطمینان کا کہیں وجود نہیں ۔ اس کا سبب اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ سامان سارے موجود اور بکثرت موجود ہیں مگر ان کی برکت مٹ گئی ہے۔سورہ انعام میں کفار و فجار کے بارے میں فرمایا کہ”جب ان لوگوں نے احکام ِ خداوندی کو جھٹلایاتو ہم نے اُن پر ہر چیز کے دروازے کھول دئے اور پھر اچانک اُن کوعذاب میں پکڑ لیا”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسباب کی فراونی اور ہر چیز کے دروازے کھل جانا کوئی حقیقی انعام نہیںبلکہ وہ قہرِ الٰہی بھی ہو سکتا ہے۔اس میں یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ اگر وہ ایمان و تقویٰ اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان کی برکا ت کھول دیتے۔اہلِ اللہ نے بتلایا ہے کہ اگر مال و دولت اور عیش و آرام کے ساتھ اللہ کی عبادت اور شکر کی توفیق اور زیادہ ہو جائے تو سمجھا جائے گا کہ یہ رحمت ہے۔اور اگر مال و دولت اور عزت وراحت کے ساتھ اللہ سے دوری اور گناہوں کی کثرت بڑھ جائے تو سمجھ جانا چاہئے کہ قہرِ الٰہی ہے ۔ پس عقل مند کا کام یہ ہے کہ دوسروں کے حالات سے عبرت پکڑے اور جو کام دوسروں کے لئے ہلاکت وبربادی کا سبب بن چکے ہیں اُن کے پاس جانے سے بچے، اور ایمان و تقویٰ اختیار کر کے دنیا و آخرت کی برکات سمیٹے۔

پگڈنڈیاں———–پروفیسرڈاکٹررابعہ تبسم” ایک تبصرہ

  1. درست فرمایا بلکل انسان اللہٰ کی مشیت کو سمجھنے سی قاصر ہے جب تک اس کا کرم سفمل حال نہ ہو ہم سمجھ نہیں سکتے کہ یدہ کرم کی انتہا ہے یا اس کے عذاب کا آغاز

اپنا تبصرہ بھیجیں