ایوب خان اورعمران خان———–شاہد اعوان

ویسے تو پاکستان کے تمام حکمرانوں کی زندگیوں اور ادوارِ حکومت کا اگر عمیق جائزہ لیا جائے تو قدرِ حکمرانی میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ کورونا لاک ڈائون اور حالیہ رمضان المبارک کے فرصت کے لمحات میں ایوبی دور کے سنہری واقعات پڑھنے کے مواقع میسر آئے اور قدرت اللہ شہاب کی شہرہ آفاق تصنیف ”شہاب نامہ” سے اکتسابِ فیض لیتے ہوئے بہت سی چیزیں کھل کر سامنے آئیں۔ چونکہ ایوب خان کا دورِ حکومت ہمارے بچپن کا زمانہ تھا دیہاتیوں کو ویسے بھی مواقع کم ہی ملاکرتے ہیں ہمیں اخبار کی سُدھ بُدھ بھی میٹرک میں جا کر ہوئی ورنہ صرف ریڈیو ہی واحد ‘عیاشی’ تھی جس سے ہم دور دراز پسماندہ علاقوں کے لوگ اپنا غم غلط کر لیا کرتے تھے، بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پساروں اور درختوں کی چھائوں تلے زندگی سکون سے گزرتی تھی، جلدازجلد پیغام رسانی بذریعہ ”تار” ہوا کرتی تھی اور جس گھر میں ڈاکیا ‘تار’ لے کر آ جاتا وہاں عموما صفِ ماتم بچھ جایاکرتی کہ مارشل علاقوں میں اکثریت کے بیٹے، بھائی، بھانجے ، بھتیجے عموما فوج میں ہی ہوا کرتے تھے۔۔۔ ‘تار’ انگریزی زبان میں تحریر ہوتے اور انگریزی پڑھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تاہم چند لفظوں پر مشتمل ‘تار’خوشی یا غم کا پیغام ساتھ لاتا کہ اس میں یا تو فوجی جوان کی طرف سے چھٹی پر گھر آنے کا سندیسہ ہوتا یا پھر شہادت کا مژدہ جاں فزا ہوتا!! اُس زمانے کی باتیں اگر چھڑ گئیں تو اصل موضوع سے ہم انصاف نہیں کر پائیں گے۔ خیر ہمارے علاقے تلہ گنگ میں لوگ صدر ایوب خان سے بڑھ کر گورنر امیر محمد خان سے واقف تھے کہ مغربی پاکستان میں نواب آف کالاباغ کی دھاک تھی اور انہی کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ آج ہم اس دور کی صحافت، معیشت، سیاست اور خارجہ امور کا ذکر کریں گے ، صدر ایوب خان کی اخبارات میں دلچسپی ‘سٹاک ایکسچینج’ کا صفحہ ہوتا وہ اپنی ملازمت سے بچت شدہ رقوم سے تجارتی اور صنعتی کمپنیوں کے حصص خریدا کرتے تھے اور ان کے بھائوتائو پر گہری نظر رکھتے تھے۔ صدر بننے کے بعد صحافت کے بارے میں ان کے ذہن میں پتھر کی لکیر کی طرح ایک بات نقش تھی اور وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ بڑے سے بڑے جھوٹ کو پرنٹنگ پریس کی مشین سے گزار کر کاغذ پر پھیلا دیا جائے تو کئی لوگوں کی نظر میں وہ قابلِ قبول اور قابلِ اعتماد بن جاتا ہے اس لئے کبھی کبھار اچھے موڈ میں ہوتے تو پرنٹنگ پریس کو ”ذہنی جنگ کا اسلحہ خانہ” بھی کہہ دیا کرتے ۔ مارشل لا کے بعد جب ایوب خان نے صدارت کا منصب سنبھالا تو ابتدا میں اخبارت بھی شائستگی اور مروت سے کام لیتے رہے اور ان کی ذات کے خلاف کوئی اخبار چھوٹی سی خبر لگانے میں بھی انتہائی محتاط انداز اپناتا تھا مگر جب ان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے گندھارانڈسٹری کی منتقلی شروع کی تو اخبارات نے کروٹ بدلی اور ایک طوفان برپا ہو گیا وزراء میں کوئی ایسا نہ تھا جو اخبارات کے سامنے رکاوٹ بن سکتا بلکہ بعض اخبارات کو ایڑ بنا کر انہیں اس راستے پر گامزن رکھنے کے خواہاں تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ ایوب خان کی کبھی اخبارات اور اخبار نویسوں سے نہیں بنی انہوں نے اپنے دور میں کئی اخبارات کو قومی تحویل میں لینے کا شوق بھی پورا کیا ان اخبارات میں امروز، مشرق، پاکستان ٹائمز شامل تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس وقت معیشت کا کیا حال تھا، صدر ایوب کو اپنے دور میں جو اقتصادی اور معاشی امور کے وزیر، مشیر اور ماہر میسر آئے وہ یا تو نہایت لائق فائق اکائونٹنٹ تھے یا غیر معمولی سول سرونٹ تھے جو ورلڈ بنک، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی اصلاحات کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتے تھے ۔ مارشل لا نافذ ہوتے ہی جو کابینہ بنائی گئی اس میں محمد شعیب نامی وزیر خزانہ کا تقرر ہوا یہ صاحب کچھ عرصہ سے واشنگٹن کے عالمی بنک میں ڈائریکٹر کے عہدہ پر تعینات تھے قومی وسائل کو بیرونی ذرائع کا محتاج بنانے کے لئے نام نہاد اقتصادی ماہرین نے ایوب خان کو یہ باور کرایا کہ یہ پاکستان کی طرح تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے لئے مادی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے کوئی شارٹ کٹ استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان لکیر کے فقیروں نے سرخ فیتے کی مدد سے صنعتی اور تجارتی ترقی کا زینہ اس طرح آویزاں کر دیا کہ اس پر وہی چیدہ چیدہ اور برگزیدہ پسندیدہ اشخاص ہی اوپر چڑھ سکتے تھے جو قسمت کے دھنی تھے نئی صنعتیں لگانے کے لئے لائسنس یا تو پرانے صنعتکاروں اور تاجروں کو ملتے تھے یا ان دوسرے لوگوں کو ملتے تھے جنہیں سیاسی رشوت، اقربا پروری یا خوشنودی کی خاطر نوازنا ہوتا تھا۔
مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ
تلسی داس غریب کی کوئی نہ پوچھے بات
کا دور دورہ تھا امیر امیر ترین اور غریب غریب ترین ہو رہا تھا اس دور میں وزیر خزانہ محمد شعیب کا ایک بیان چھپا کہ ”ہم کارٹلز کا قلع قمع کر کے رہیں گے”۔ لیکن اڑھائی سال کے اندر اندر انہوں نے قلابازی کھائی اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ کارٹلز بنانے والوں کو رضاکارانہ طور پر ختم کر دینا چاہئے، اس کے بعد اس موضوع پر زیب داستان کے لئے اتنی سی بیان آرائی بھی بند ہو گئی۔ ان واقعات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ معیشت ابتداہی سے غیر ملکی آقائوں کے زیر اثر رہی ہے۔ اب ایوب خان اور سیاستدانوں کی بات کرتے ہیں، صدر ایوب کا المیہ یہ تھا کہ وہ اپنے ملک کے سیاستدانوں کے خلاف گرجتے برستے اور ان پر لعن طعن کر کے نفرت و حقارت کے نعرے لگاتے مگر کرسیٔ اقتدار پر قابض ہوئے تو دیکھتے ہی دیکھتے لنگوٹ کس کر بذاتِ خود سیاست کے اکھاڑے میں آ گئے۔ سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف فیلڈ مارشل کا رویہ کسی گہری سوچ بچار کا یا بالغ نظری کا نتیجہ نہ تھا بلکہ بعض مفروضات اور نظریات قائم کر کے انہوں نے سیاستدانوں کے کردار اور اعمال کے متعلق تفصیلی یادداشتیں زبانی یاد کر رکھی تھیں جن کا حوالہ دے کر اس موضوع پر گفتگو کو نہایت چٹخارے دار اور لچھے دار بنانے کے رسیا تھے کئی بار ان کی حرکتیں بڑی طفلانہ اور مضحکہ خیز نظر آتی تھیں لیکن ان کے ملاقاتیوں اور نجی محفلوں میں شریک ہونے والے افراد کی اکثریت جی حضوریوں پر مبنی تھی ان میں کسی میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے ممدوح کو اس بھونڈے اور بچگانہ فعل کی وجہ سے خواہ مخواہ سرمایۂ تضحیک بننے سے روکے۔ انہوں نے اپنے دور میں بہت سے ایسے قوانین بنائے جن کے ذریعے بہت سے سیاستدانوں کو نااہل قرار دینے میں کامیاب ہوئے اس وجہ سے اس دور کے بہت سے سیاستدان بذاتِ خود نااہل ہوکر ایوبی اقتدار ختم ہونے کا اانتظار کرنے لگے تھے ان سیاستدانوں کو معمولی قسم کے الزامات لگا کر نااہل کر دیا جاتا تھا۔
اور اب ایوب خان کی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالتے ہیں، ایوب خان خود پسندی اور نرگسیت کا کس قدر شکار تھے اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگا لیجئے نیویارک سے ان کے مداحوں کا ایک خط آیا کہ ٹیلی ویژن پر ذہنی آزمائش کا ایک پروگرام چل رہا تھا جس میں سوال پوچھا گیا کہ دنیا بھر کے سربراہان مملکت میں سب سے خوبصورت شخصیت کون سی ہے؟ تو سب حاضرین نے بیک زبان جواب دیا ”ایوب خان آف پاکستان۔” ایسے واقعات سے ایوب خان اس زعم میں مبتلا ہو گئے تھے کہ پاکستان کے خارجہ تعلقات میں ان کی ذات کا بہت بڑا حصہ ہے۔ موصوف نے اپنی کتاب “Friends not masters” میں خارجہ پالیسی کے عنوان سے صفحہ71پر ایک مضمون لکھا جس میں کسی وزیر خارجہ تک کا ذکر تک نہیں ہے ۔ اس میں کلام نہیں کہ ایوب خان کی شخصیت کو قدرت نے مردانہ وجاہت اور جمال سے نہایت فیاضی سے نوازا تھا، شخصیت کی کشش افراد پر تو ضرور کسی قدر اثرانداز ہوتی ہے لیکن ملکوں اور ریاستوں کی پالیسیوں پر عموما ہلکا سا جادو چلنے نہیں پایا۔ ایوب خان فرصت کے لمحات میں ‘نتھیا گلی’ جیسے پرفضا مقام کو بھی پسند فرماتے تھے۔ مذکورہ بالا سطور صدر ایوب کی شخصیت اور ان کے دورِ حکومت کی چند جھلکیاں تھیں جنہیں سامنے رکھ کر موجودہ حکمران عمران خان کے دورِ اقتدار کا تقابل کیا جائے تو ماضی اور حال کے دونوں پاکستانی حکمرانوں کی بہت سی عادتوں اور طرزِ حکمرانی میں مشابہت نظر آئے گی ذرا آپ بھی مشاہدہ کیجئے اور اس حسنِ اتفاق پر قربان جائیے۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں