ہم ایران سے کب سبق سیکھیں گے——– محمد نعیم قریشی

امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کا م کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی کا یہ بیان نظر سے گذرا جس میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ایران کی ڈرون طاقت میں اضافہ ہوا ہے اور ایران نے امریکی فضائی برتری کا خاتمہ کردیا ہےانہوں نے اپنے بیان میں واضح الفاظوں میں یہ اعتراف کیا کہ ایران کی ڈرون طاقت کے باعث مغربی ایشیا ء کے علاقے پر امریکہ کی فضائی طاقت اور برتری ختم ہوگئی ہے امریکی ایوان نمائندگان کی مسلح افواج کی کمیٹی کے روبرویہ انکشاف کیا کہ ایران مختلف طرح کے ڈرون طیاروں کے ذریعے خطے میں امریکی فضائی بر تری کو مسلسل چیلنج کر رہا ہے اور کہاکہ ایران کی ڈرون طاقت کی
وجہ سے جنگ کوریا کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ امریکہ کی فضائی برتری ختم ہوکر رہ گئی ہے انہوں نے امریکہ کی فضائی برتری کے بارے میں پوچھےگئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایران کی جانب سے جاسوس اور حملوں کے
لئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈرون طیاروں کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ ہم سن پچاس کے عشرے کی جنگ کوریا کے بعد پہلی بار کسی علاقے میں مکمل فضائی برتری کے بغیر اپنا مشن انجام دینے پر مجبور ہوگئے ہیں جب تک ہم
ایران کے ڈرون سسٹم کو سمجھنے اور اسے نابود کرنے کا کوئی بندوبست نہیں کرتے ہمیں مکمل فضائی برتری دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتی، قائرین کرام درحقیقت اس بیا ن نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کو استعمال کرتے ہوئے ایران پر جو ظالمانہ قسم کی اقتصادی، معاشی اور تجارتی پابندیاں عائد کی تھیں اس پر ایرانی حکومت اور عوام نے جس ہمت اورصبر سے انکا مقابلہ کیا ہے وہ پاکستان سمیت دیگر ان اسلامی ملک کیلئےایک مثال ہے جو نہ صرف امریکہ بلکہ اب اسرائیل کی بھی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں ہر چند کہ ان اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی معیشت شدید
بحران کا شکار تھی جس کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری مہنگائی کی وجہ سےوہاں کی عوام میں مایوسی اور بے چینی پھیلی ہوئی تھی لیکن سلا م ہےایرانی قیادت کو جنھوں نے سخت ترین حالات کے باوجود غیرت وحمیت کا ثبوت
دیتے ہوئے امریکہ اور اسکے یورپی حواریوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا بلکہ اس دوران ان تمام رکاوٹوں کے باوجود ملک کیلئے معاشی فوجی،معاشرتی سائنسی اور ثقافتی منصوبو ں پر کام جاری رکھا جسکا نتیجہ یہ ہےکہ آج امریکہ جیسی سپر پاور اپنے آ پ کو اس خطّے میں بے بس اور غیرمحفوظ محسوس کر رہی ہے! آج ہم جس ایران کے انقلاب کی بات کررہے ہیں اس ایران کا شمار دنیا کی ان چند قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتاہے جنکا وجودہزاروں برس قبل مسیح میں موجود رتھاپرانے وقتوں میں اسے پرشیا کے نام سےپکارا جاتاتھا، در حقیقت دیکھا جائے تواسلامی انقلاب کے بعد ایرانی قیادت نے نہایت دانش مندی اور حوصلے سے سب سے پہلے دیہی اور شہری علاقوں کےدرمیان فرق کو تیزی سے کم کیا، شاہ ایران کے زمانے میں شہری علاقوں میں80فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی کی سہولت حاصل تھی اور دیہی علاقوں میں یہ فرق تقریباً 9 فیصد تھا لیکن 2000؁ تک یہ فرق کافی حدتک کم ہو چکا تھاایران بنیادی طور پر تیل کی برآمد کی آمدنی پر انحصار کرتا تھا لیکن اقتصادی پابندیوں کے بعد اس آمدنی میں بہت بڑی کٹوتی ہوگئی اور رہی سہی کسر ایران و عراق جنگ نے پوری کردی لیکن اس کے باوجود 2000؁ تک ایران انسانی ترقی کے انڈیکس میں ترکی کے برابر آچکا تھا اور غربت میں بھی کمی آچکی تھی جبکہ صحت کے شعبے میں دیہی علاقوں میں بہت کام کیا گیا جبکہ دفاع کے میدان میں ایران نے جو بے مثال کامیابیاں حاصل کیں اسکا ثبوت امریکی جنرل کا یہ بیان ہے،،پچھلے ہفتے ہیں ایران نے ایک بڑے جسامت والےڈرون کی نقاب کشائی کی ہے جو 2000 کلو میٹر تک اپنے حدف کو نشانہ بنانےکی صلاحیت رکھتا ہے غزہ کے نام سے موسوم ڈرون فوجی اور بحالی دونوں طرح کے مشنزپر تعینات کیا جاسکتا ہے اور35ہزار فٹ کی بلندی پرپروازکرسکتاہے،یہ ایک نیا اینٹی ایئر کرافٹ میزائل سسٹم ہے جسے نواں دن(9th Day) کہا جاتا ہے،اس اینٹی ایئر کرافٹ سسٹم میں جنگی طیاروں کروزمیزائلوں اور ڈرون کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہے نئے ڈرون کی تعیناتی سےایران کی بحری اور فوجی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے،حال ہی میں ایران اورچین کے درمیان ایک معاشی، تجارتی، دفاعی معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت چین ،ایران میں 25 برس کے دوران 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا اور بدلےمیں ایران چین کو ارزاں نرخوں پر تیل فراہم کرے گا یہ معاہد ہ بھی ایرانی
قیادت کا حکمت و تدبر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کیونکہ 2015؁ میں امریکہ اوراسکے حامیوں کے ساتھ ایران نے جو مشترکہ ایٹمی معاہدہ کیا تھا اسے صدرٹرمپ نے2018 میں یکطرفہ طور پر ختم کردیا تھا اور ساتھ ہی ایران پر مزیدسخت معاشی پابندیاں عائید کردیں تھیں تاکہ ایران بالکل ہی تنہا ہوکر رہ جائے ان پابندیوں کی وجہ سے ہر راستہ بند ہوچکاتھا اور بدلے میں ایرانی معیشت نڈھال ہوکررہ گئی تھی تیل کی پیداوار اور ترسیل بری طرح متاثر ہورہی تھی ایسے میں ایرانی معیشت میں سدھار لانے کے لئے ضروری تھا کہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے لہٰذا اس معاہدے نے امریکہ کو بے چین
کردیا اور اس طرح امریکی زرائع ابلاغ نے بھی نئے امریکی صدر جوبائیڈن اوراس کی انتظامیہ کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار ددیا،اور کہاکہ اس معاہدے نےایران کو الگ تھلک کرنے کے امریکی منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے امریکی جریدے ”بلوم برگ “ نے کہا کہ تہران اور بیجنگ کے درمیان قریبی تعاون امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کی اقتصادی تقویت کا باعث بنے گااور ایسا ہی ہوا جب صدر جو بائیڈن کی خواہش پر امریکا نے مشترکہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کیلئے ایران کیسا تھ ویانا میں مذاکرات شروع کئے تو اس دوران نائب وزیر خارجہ عباس عرانچی نے کہا ہے کہ مذاکرات سے کوئی نتیجہاخذکرنا قبل از وقت ہوگا انہوں نے کہا کہ ویانا میں 2015 میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کو بچانے کیلئے بات چیت میں سخت ترین مشکلات کے باوجود پیش رفت ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ اس سے قبل مشترکہ جوہری معاہدے میں واپس آنے کیلئے امریکہ کو ایران کے خلاف تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا اوراقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے سلسلے میں پہلا قدم بھی امریکہ کو ہی اٹھانا ہوگا اس لئے کہ امریکہ نے مشترکہ جوہری معاہدے سے خارج ہوکر اسکی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا انہوں نے کہا اس بات چیت کے دوران میں جب بھی نامعقول مطالبات کئے گئے وقت کا ضیاع ہواور غیرعقلی سودے بازی کی کوشش کی گئی تو ایرانی وفد و یانا سے اٹھ آئے گا اور بات چیت کا سلسلہ منقطع کردیا جائے گا۔قائرین کرام آج یہ سب کچھ ہم ایران سے سیکھ سکتے ہیںاقتصادی پابندیوں اور جنگی ماحول کے باوجود کیسے جینا اور آگے بڑھنا ہےہم ایران سے سیکھ سکتے ہیں،ایک قوم اور ایک زبان ہوکر اپنی شناخت کو کیسےقائم رکھا جاسکتاہے ہے یہ ہم ایران سے سیکھ سکتے ہیں،غربت،بے روزگاری اورپسما ندگی کی آخری حدوں کو چھو کر دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کی فہرست میں کیسے آنا ہے یہ ہم ایران سے سیکھ سکتے ہیں، دنیا کے آگے ہاتھ پھیلائےبغیر اپنے وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ملک کو کیسے آگے لیکر بڑھنا ہے ہےیہ سب ہم ایران سے سیکھ سکتے ہیں۔لہذا پاکستان سمیت تمام برادر اسلامی ممالک کے لیے یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ دنیا تو دشمن سے بھی سیکھ لیتی ہے یہ تو ہمارا اسلامی برادر ملک ہے ہم اس کی کامیابی کے سامنے اپنے سیکھنے کےدروازے کس طرح سے بند کرسکتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں