دیانت داری—-پروفیسریحیٰ خالد

پروفیسر یحیٰ خالد
yahyakhalid42@gmail.com

—-دیانت داری—

کسی بھی محکمے کو اِن آرڈر رکھنے کے لئے ایک ضروری امر یہ بھی ہے کہ وہ محکمے اور اُس کے کارندے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور اپنے کام پر پوری توجہ دیں۔ نیشنل اکاؤنٹ ابیلٹی بیورو کی بنیاد اس لئے رکھی گئی تھی کہ ایک ناجائز مارشل لاء کا رعب داب قائم رکھنے کے لئے ایسے سارے سیاست دانوں کو کہ جو کسی نہ کسی طور پر حکومت کے کسی بھی ادارے کی سربراہی میں رہے ہوں اُن کو پھنسا لیں اور اگر کچھ اُن سے ملتا ہے یا نہیں ملتا بہرحال اُن کو مصروف رکھا جائے۔ مارشل لاء کے دور میں توبات ٹھیک تھی کہ سیاست دان مارشل لاء ایڈمسٹڑیٹر کو تنگ نہ کریں مگر اس کے بعد نیب کو زندہ رکھا گیا اور اُس سے اپنے مخالفین کو دبانے کے لئے پوری طرح استعمال کیا گیا ۔ اس کی مثال مسلم لیگ ن کی پی پی پی کے لیڈرں کے خلاف مقدمے بنانا اور اُن کو جیل میں قید رکھنا وغیرہ سب کے سامنے ہے۔ ان مقدمات کے جو فیصلے عدالتوں کی جانب سے ہوئے وہ بھی سب کے سامنے ہیں مگر ایک شخص کو گیارہ سال تک حبس بے جا میں رکھنا بھی تو نیب کا شاہکار ہی کہلائے گا ۔ دریں اثنا حکومتیں بھی بدلتی رہیں اور مقدمات بھی بنتے رہے۔ مگر مقدمات صرف سیاست دانوں تک ہی محدود رہے ۔ پی پی نے مسلم لیگ کے قائدین کے خلاف اور مسلم لیگ نے پی پی پی کے قائدین کے خلاف مقدمات بنائے۔ مزے کی بات یہ کہ دونوں پارٹیا ں ایک دوسرے کو کرپٹ کہتی رہیں۔ اقتدار ایسی بے وفا چیز ہے کہ یہ کبھی ایک ہاتھ میں نہیں رہتا۔ اور جب دوسرے ہاتھ جاتا ہے تو پہلے ہاتھ کو ننگا کرنے لگتا ہے۔ ایک ہماری سیاست کی یہ ریت بھی ہے کہ ہم جانے والی حکومتوں کو بد دیانت اور اپنی حکومت کو دیانت دار کہتے ہیں یو ں لگتا ہے کہ اقتدار میں ہونے والی پارٹی کے لوگ سارے ہی زم زم سے دھلے ہیں ۔ مگر جب اقتدر کی دیوی کاہاتھ سر سے اٹھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہا ں تو پہلے والوں سے بھی زیادہ بددیانتی کا راج رہا ہے۔ہو سکتا ہے کہ پاکستان اورانڈیا میں یہ رواج ہی ہوگیا ہے کہ جو بھی اقتدار سے نیچے اترے اُس کی اگلی جگہ جیل ہونی چاہیئے۔ اور اسی خاطر جناب پرویز مشرف نے اس کا ڈول ڈالا تھا ۔ اس میں ایک قانون ایسا بنا دیا گیا کہ جو ساری دنیا ہی سے نرالا ہے۔ کہ آپ پر جرم ثابت ہے یانہیں ہے آپ کو تین ماہ کے لئے نیب اپنی ” حفاظت ” میں رکھ سکتا ہے اور آپ کو اس دوران ضمانت کی بھی اجازت نہیں ہے۔ نیب کا مقصد تو تھا کہ سیاست دانوں کو ” نتھ ” ڈالی جائے کہ وہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے لئے سر دردی کا سبب نہ بنیں مگر اب اس کو اپنے سیاسی مخالفین کے لئے اور اس کے علا وہ بھی جن لوگوں کو نیب چاہے اپنی” حفاظت” میں لے سکتی ہے۔ یہ اِس دور میں ہوا ہے ۔ اس لئے کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب اور چئیر مین نیب دونوں ہی ماشا اللہ دیانت داری کے معاملے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ہمیں اس میں شک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر ایک برائی جو ایک دیانت دار شخص میں خود کو دیانت دار سمجھنے میں پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے علاوہ ساری دنیا کو بد دیانت سمجھتا ہے۔ یہیں سے خرابیاں شروع ہوتی ہے۔ حالانکہ دیانت داری میں ایک مخلوق خدا شامل ہے اس لئے کہ اگر بددیانتی ہی سب کا شیوہ ہو تو نظام زندگی کا چلانا ہی محال ہوجاتا ہے۔ پاکستان چونکہ قائم و دائم ہے تو اس میں ضرور دیانت داروں کا بڑا عمل دخل ہے ۔ مگر کیا کیجئے کہ ہمارے نیب کے چئیر مین صاحب اس بات کو مد نظر نہیں رکھ رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حدود سے باہر نکل کر عملاً دوسرے لوگوں کی حدود میں دخل اندازی کر رہے ہیں جس نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس ملک میں بہت سے محکمے چیزوں کو کنٹرول کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں ۔مثلاً ٹیکس کے لئے ایک بہت بڑی تنظیم موجود ہے جس کا کام ہی ڈیفالٹرز کا تعین کرنا اور اُن کو کیفر کردارتک پہنچانا ہے اور نئے نئے ٹیکس گزاروں کو نیٹ میں لانا ہے۔ اب اگر یہ کام بھی نیب نے ہی کرنا ہے تو ایکسائز اینڈٹیکسیشن کے محکمے کیا ضرورت رہ جاتی ہے اسی طرح ہر روز جو نیب تاجروں کے پیچھے پڑی ہے اس کا کیا فائدہ ہے ۔ لوگ اتنے تنگ ہیں کہ وہ پاکستان سے اپنا کاروبار ہی سمیٹنے جا رہے ہیں۔ اس کے لئے بھی الگ سے محکمے موجود ہیں ۔ اگر کوئی اس فیلڈ میں بے ایمانی کر رہا ہے تو اسے پکڑنے کے لئے لوگ موجود ہیں مگر نہیں کیونکہ چئیرمین نیب سے یہ دیکھا نہیں جاتا کہ کوئی تاجر بے ایمانی کرے اس لئے و ہ تاجروں کو بھی اپنے ہاں چاہے پر مدعو کر رہے ہیں اور جو بھی شخص ایک دفعہ نیب کی چائے پی کے آتا ہے وہ دوبارہ وہاں جانے سے بہتر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنا کاروبار ہی بنگلہ دیش یا ملائشیا میںلے جائے۔ ایسے میں کون ہوگا جو پاکستان کی معیشت کو سہارا دے گا۔ تاجروں نے جب دیکھا کہ اُن کو کسی طرف سے ریلیف نہیں مل رہا تو ناچار وہ آرمی چیف کے پاس چلے گئے۔ اب کتنے شرم کی بات ہے کہ تاجروں کو آرمی چیف سے انصاف مانگنے جانا پڑا ۔ اسی طرح کے ایک معاملے میں آ کر ابھی تک نواز شریف نیب کی انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔انہوں نے نیب کی ٹیم کو اس بات پر ڈانٹا تھا کہ وہ تاجروں کو تنگ نہ کریں اور اس کا جواب آج تک اُن کو مل رہا ہے۔ اُن کی وہ تنخواہ بھی اثاثوں میں شامل کی گئی جو انہوں نے کبھی لی ہی نہیں تھی۔ اور اس بات پر اُن کو زندگی بھر کے لئے سیاست سے ہی نکال دیا گیا تھا۔ اور اس کو عین انصاف کہا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سوائے عدلیہ کے اور نیب کے کوئی شخص جانتا ہی نہیں کہ اثاثوں کا مطلب کیا ہے۔ آئے روز لوگوں کو آمدن سے زیادہ اثاثوں کے نام پر نیب کے عقوبت خانوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ کیا نیب نے معلوم کیا ہے کہ کسی کے کتنے اثاثے ہیں ( نواز شریف والے نہیں ، اصلی والے) اور کتنی آمدن ہے۔ صرف اتنا ہے کہ سیاست دان کا تعلق پی پی پی یا مسلم لیگ ن سے ہونا چاہیئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں