پگڈنڈیاں—رحمت کا پرنالہ

ڈاکٹر رابعہ تبسّم
rabiatabassum17@yahoo.com

—–رحمت کاپرنالہ—–

بےبے جی اور بابو جی جب حج کر کے آئے تو اپنے ساتھ فلم کیمرہ لے کے آئے جس میں رِیل ڈال کر وہ ہمیں خانہ کعبہ اور دیگر مقدس مقامات کی تصاویر دکھایا کرتے تھے ان دنوں ٹی وی وغیرہ کا دور نہ تھا، اس لئے یہ سب کچھ ہمارے اور دیگر احباب کے لئے دلی خوشی کاباعث تھا ۔ انھی تصویروں میں خانہ کعبہ کے اوپر لگا پرنالہ بھی تھا جسے میزابِ رحمت کہا جاتا ہے جو سونے کا بنا ہوا ہے اور اس سے عجیب سی روشنی سی نکلتی ہوئی دکھائی دیتی تھی اعر میں سوچا کرتی تھی کہ کبھی میں بھی اس پرنالے کے نیچے جا کر دعا مانگ سکوں گی کیونکہ کعبہ کی تصویر میں رحمت کا پرنالہ دکھاتے ہوئے بےبےجی ہمیں بتایا کرتی تھیں کہ اس پرنالے کے نیچے کھڑے ہو کے میں نے دعا کی ہےکہ اے اللہ میری تمام آل اولاد کو اپنے گھر کا طواف اور میدانِ عرفات کی حاضری نصیب فرمانا،اُن کی دعایئں بارگاہِ الہٰی میں شرفِ قبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ میں جو اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوں جب اُن کی دعاوں کے طفیل اس عظمت والے گھر کی زیارت اور طواف کے لئے بلائی گئی تو میں نے کوشش کی کہ اس برکت والے گھر کی ایک ایک اینٹ اور ایک یک گوشے سے رحمت و محبت کی لہروں کو اپنے دل کی گہرائیوں میں جذب کر سکوں۔اس کےمقدس فرش کے ہر کونے میں اپنی گنہ گار پیشانی کو
رگڑ سکوں اپنے گناہوں کی سیاہی کو کم کر سکوں۔ یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا کہ میں رحمت کے پرنالے کے سامنے والے برآمدے میں بیٹھی اُس کا نظارہ کر رہی تھی ۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے عاشقانِ حرم تمام دروازوں سے گروہ در گروہ ریلے بن کر بہہ رہے تھے کہیں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ چلنے والے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور بیٹھے ہوے سکڑ سمٹ رہے تھے ۔جن کو جہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی وہ وہاں سے اُٹھنے کو تیار نہ تھےکہ مبادہ کوئی دوسرا بیٹھ جائے اور انھیں دوبارہ جگہ نہ ملے۔جب میں اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا چکی تو اپنے ارد گرد کا جائزہ لیا، میرے سامنے کچھ فاصلے پہ ایک ستون تھا ایک پاکستانی خاتون اس سے ٹیک لگا کے کھڑی تھیں اور ملتجیانہ نظروں سے آس پاس کی خواتین کو دیکھ رہی تھیں اور اُن سے اپنے بیٹھنے کے لئے جگہ مانگ رہی تھیں،مگر کوئی عورت ان پہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔تبھی میں نے اشارے سے اُنھیں اپنے پاس آنے کو کہا وہ بڑی مشکلوں سے میرے قریب پہنچی میں نے ہاتھ بڑھا کر اُنھیںاپنے پاس کھینچ لیا اگرچہ صرف پاوں رکھنے کی ہی جگہ تھی، جو لوگ حرم شریف میں جا چکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جب ایک دفعہاس بھیڑ میں داخل ہو جائیں تو بیٹھنے اور نماز پڑھنے کی جگہ مل ہی جاتی ہے۔ چنانچہ جوں ہی ادھر اُدھر کھسک کے میں نے اُنھیں اپنے پاس بٹھایا تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے بے اختیار اُنھوں نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی”بچہ اللہ تیرا حج قبول کرے” اور ساتھ ہی کہنے لگیں میں شوگر کی مریضہ ہوں اور کب سےان عورتوں کی منتیں کر رہی کہ مجھے بیٹھنے کی جگہ دے دو اگر تم مجھے نہ بلاتی تو میں نے ادھر ہی گر پڑنا تھا۔تبھی میری نظر اوپر اُٹھی برآمدے کے کنارےپر میرے استادِ محترم مقصود عالم بخاری اپنی اہلیہ کے ساتھ کھڑے تھے اور اوپر رحمت کےپرنالے سے نور ہی نور بہہ رہا تھا جس نے مجھےشرابور کر دیا تھا میرے سامنے حرم کا وہ حصہ جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا ۔ وہ کیا روشنی تھی کیا جلوہ تھا لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، بس مجھے لگا کہ دور بہت دور دل کے نہاں خانوں میں رحمت کا کوئی قطرہ چپکے چپکے جا کر گرا ہے۔اور میری بے بے جی کی دعا رحمت کے پرنالے کے نیچے کھڑی مسکرا رہی ہے۔
رحمت دا دریا الٰہی ہر دم وگدا اے تیرا
جے ہک قطرہ بخشیں مینوں کم ہو جائے میرا

4 تبصرے “پگڈنڈیاں—رحمت کا پرنالہ

  1. زبردست۔ سبحان اللہ۔ اللہ ہم سب کو رحمت کے پرنالے کی زیارت نصیب کرے۔ آمین

  2. ڈاکٹر رابعہ تبسم صاحبہ کے لکھنے کا کمال یہی ھے کہ قاری کو اٹھا کر اس مقام پر لے جاتی ہیں جسکا ذکر ھو رھا ھوتا ھے. میری بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے کا دل کی اتاہ گھرائیوں سے شکریہ. انسان انسان کے مشکل کام آئے یہی درس ھمیں قران اور اسلام دیتا ھے. جو کہ یقیناً اللَّهِ کی خوشنودی کے لئے کافی ھے.

  3. ڈاکٹر رابعہ تبسم صاحبہ کے لکھنے کا کمال یہی ھے کہ قاری کو اٹھا کر اس مقام پر لے جاتی ہیں جسکا ذکر ھو رھا ھوتا ھے. میری بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے کا دل کی اتاہ گھرائیوں سے شکریہ. انسان انسان کے مشکل کام آئے یہی درس ھمیں قران اور اسلام دیتا ھے. جو کہ یقیناً اللَّهِ کی خوشنودی کے لئے کافی ھے.

  4. ما شا اللّہ سبحان اللّہ میم واقع ہی مجھے لگا کہ میں بھی حرم میں اس میزا ب رحمت کے تلے موجود ہوں وہ تو نرا کریم ہے بہت خوب لکھا ڈاکٹر رابعہ صاحبہ نے اللہ پاک زور قلم اور زیادہ مرزا بیدل کا شعر یاد آیا فارسی کا ہے
    تو کریم مطلق و من گدا کہ چو نی گزی کہ نہ خوا نیم
    در دیگرام بن مو کے من اے کجا رام چو برانیم

اپنا تبصرہ بھیجیں