خیبرپختونخوا کی ڈائری

صوبے میں ڈینگی بے قابو ، متاثرہ افرادکی تعداد 5000سے متجاوزڈاکٹروں کی ہڑتال سے غریب مریض رُل گئے
افغان مہاجرین کی وطن واپسی سست روی کاشکار،اسفندیارولی خان اوربلاول کی ملاقات،مولانافضل الرحمان کاآزادی مارچ،صوبے کے واحد بین الاقوامی ائرپورٹ پر مسافرطیاروں کوخطرات لاحق

خیبرپختونخوامیں پورے ملک کی طرح ڈینگی کے وارجاری ہیں آخری اطلاعات تک 5000سے زائدمریضوں میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے بیشترکوہسپتالوں سے علاج معالجے کے بعدفارغ کیاجاچکاہے اس لحاظ سے اگردیکھاجائے توپورے ملک کے دس ہزارسے زائدافرادمیں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جس کازیادہ ترنشانہ راولپنڈی بنا ہے مگرپورے ملک کے آدھے کیسز خیبرپختونخواسے رپورٹ ہوچکے ہیں جیساکہ ہم سب جانتے ہیں صوبے میں ڈینگی کی وبانے 2015میں سراٹھایاتھااس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے صوبائی حکومت کی کافی مددکی تھی اورعلاج معالجے کی بہترسہولیات مہیاکی گئی تھیں اگرپرویزخٹک حکومت چاہتی توشہبازشریف کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکتی تھی اس حوالے سے اس وقت کی پنجاب حکومت پیشکش بھی کرچکی تھی مگرصوبائی حکومت کی انا آڑے آتی رہی اوراسکے بعدیہاں ہرسال ستمبراکتوبرمیں ڈینگی کی وباء پھیل جاتی ہے گزشتہ برس پشاورکاعلاقہ تہکال اس سے بری طرح متاثرہواتھا جہاں 30 سے40اموات رپورٹ ہوئی تھیں امسال بھی پشاوردیگراضلاع کی نسبت ڈینگی سے زیادہ متاثردکھائی دے رہاہے اورصوبے سے ڈینگی کے جتنے کیسزرپورٹ ہوئے ہیں ان کے نصف کیسزصرف صوبائی دارالحکومت پشاورسے رپورٹ ہوئے ہیں دیگرمتاثرہ اضلاع میں سوات ، دیر، صوابی ، چارسدہ ،نوشہرہ ،کوہاٹ اوربنوں بھی شامل ہیں جہاں ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات کی بناپرمریض پشاورکے بڑے ہسپتالوں کارخ کرتے ہیں پشاورکے تین بڑے ہسپتال لیڈی ریڈنگ ہسپتال، خیبرٹیچنگ ہسپتال اورحیات آبادمیڈیکل کمپلیکس پراس حوالے سے مریضوں کابے پناہ بوجھ پڑگیاہے اوپرسے ڈاکٹرزاورپیرامیڈیکل سٹاف کی ہڑتال نے جلتی پرتیل کاکام کیااورمریضوں کوشدیدمشکلات کاسامنارہاصاحب حیثیت لوگ توویسے بھی سرکاری ہسپتالوں کارخ نہیں کرتے صوبے کے غریب اورعام لوگ ڈاکٹروں کی ہڑتال سے متاثرہورہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت اوروزارتِ صحت ڈاکٹروں کیساتھ مذاکرات اورہڑتال ختم کرانے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے اوپرسے صوبائی وزراکے بیانات مزیدمشکلات کاسبب بن رہے ہیں تحریک انصاف کے وزراکی کوشش ہوتی ہے کہ حکومتی اموربیانات کے ذریعے چلائیں حالانکہ انکے بیانات اکثروبیشترمسائل کوجنم دینے کاباعث بنتے ہیں ڈاکٹروں کی ہڑتال پرصوبائی وزیراطلاعات شوکت یوسفزئی کاایک نادرِ روزگاربیان سامنے آیاان کافرماناتھا کہ ہماری حکومت نے ڈاکٹروں کوسب سے زیادہ نوکریاں اورسہولیات مہیاکی ہیں ورنہ ہماری حکومت سے پہلے توڈاکٹرزقصہ خوانی بازارمیں پکوڑے بیچتے تھے انکی اس بے جاہرزہ سرائی کا ڈاکٹروں سمیت صوبے کے دیگرسنجیدہ سیاسی اورسماجی حلقوں نے کافی برامنایاجس کیلئے وزیراطلاعات کوبعدمیں وضاحتیں دیناپڑگئیں بہرحال صوبہ اس وقت دومسائل کاسامناکررہاہے ڈینگی اورڈاکٹروں کی ہڑتال ،دونوں مسائل کے حل میں حکومت ناکام دکھائی دے رہی ہے اوپرسے مولانافضل الرحمان نے 27اکتوبرکوآزادی مارچ کااعلان کیااب حکومتی مشینری اپنے تمام امورچھوڑچھاڑکرمولانافضل الرحمان کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہوچکی ہے سب سے پہلابیان وزیراعلیٰ محمودخان کاآیاشانگلہ میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کے دوران ان کاکہناتھاکہ مولاناکے مارچ کوہم اپنے صوبے سے گزرنے نہیں دینگے انکے بیان کاجواب صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈراورسابق وزیراعلیٰ اکرم خان درانی نے احسن طریقے سے دیا ان کاکہناتھاکہ احتجاج اورسیاسی سرگرمیاں ہرفرداورسیاسی پارٹی کاحق ہے اورکوئی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ صوبے کے باشندوں کواس حق سے محروم نہیں کرسکتااوراگرکسی نے نادانی میں ایساکرنے کی کوشش کی توہم بھی اینٹ کاجواب پتھرسے دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔٭٭٭
صوبے میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی کاپروگرام سست روی کاشکاہے رواں برس کے 7ماہ میں صرف 4,599افغان مہاجرین کی رضاکارانہ واپسی ممکن ہوئی ہے اس سلسلے کووزیراعظم عمران خان کے نیشنلٹی دینے کے بیان سے دھچکالگاہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں اس سال رضاکارانہ واپسی پروگرام کے تحت واپس جانے والوں کی تعدادمیں 60% کمی واقع ہوئی ہے گزشتہ برس مارچ سے نومبرتک 14017 مہاجرین واپس گئے تھے جبکہ اس سال 30 ستمبرتک بمشکل ساڑھے چارہزارافغان مہاجرین کی واپسی ممکن ہوئی ہے شنیدہے کہ اگلے ماہ سے واپسی پروگرام کوسردیوں کے باعث چارماہ کیلئے معطل کیاجائیگایہاں مقیم افغان مہاجرین اپنے غیرقانون اثاثے چھوڑکرجانے سے انکاری ہیں باخبرذرائع کے مطابق صرف پشاورمیں مقیم رجسٹرڈاورغیررجسٹرڈمہاجرین کے قانونی اورغیرقانونی اثاثے اربوں میں ہیں افغان مہاجرین کارضاکارانہ وطن واپسی کاپروگرام 2002میں شروع کیاگیاتھااب تک اس پروگرام کے تحت 43لاکھ 74ہزار 208مہاجرین کی واپسی ممکن ہوئی ہے جبکہ اس وقت پورے ملک میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد14لاکھ10ہزارسے زائدہے غیررجسٹرڈمہاجرین اسکے علاوہ ہیں حکومت کی جانب سے ان گنت مرتبہ واپسی کی ڈیڈلائن میں توسیع کی جاچکی ہے٭٭٭
صوبے میں سیاسی حوالے سے اہم خبربلاول بھٹو اوراسفندیارولی خان کے درمیان ملاقات تھی اس ملاقات میں مل کرچلنے پراتفاق کیاگیا ،حکومت کے خلاف مشترکہ لائحہء عمل مرتب کرنے پرزوردیاگیااورمولانافضل الرحمان کے مارچ پراتفاق رائے پیداکرنے کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے رہبرکمیٹی کااجلاس بلانے پراتفاق کیاگیا٭٭٭
صوبے کے واحد انٹرنیشنل ائرپورٹ باچاخان ائرپورٹ پشاورپر ملکی اور بین الاقوامی ائرلائینزکواکثروبیشترمسائل کاسامناکرناپڑتاہے گزشتہ چندبرسوں میں مسافرطیاروں پرفائرنگ کے متعدد واقعات رونماہوئے جس سے کوئی بڑانقصان تونہیں ہوامگرائرپورٹ انتظامیہ کوطویل عرصے کیلئے رات کے وقت ائرپورٹ بندکرناپڑاحالیہ عرصے میں مسافرطیاروں کے ساتھ پرندے ٹکرانے کے واقعات میں اضافہ ہواہے ایک خبرکے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران غیرملکی جہازوں کے ساتھ BIRD HIT یعنی پرندے ٹکرانے کے پانچ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ان واقعات کی بین الاقوامی ائرلائینزنے ائرپورٹ انتظامیہ سے بارہاشکایات کیں مگرمسئلہ ابھی تک جوں کاتوں ہے ایئرپورٹ چونکہ آبادی کے بیچ میں پھنس چکاہے جب یہ ائرپورٹ بنایاگیاتھااس وقت آبادی اتنی نہیں بڑھی تھی انتظامیہ کاکہناہے کہ ائرپورٹ کے اردگرد آبادیوں میں قصائیوں کی دکانوں اورکچرے کے ڈھیرکی وجہ سے پرندے منڈلاتے رہتے ہیں قصائیوں کوکئی مرتبہ متنبہ کیاگیاہے مگربے سود۔٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں