ڈاکٹرعبدالقدیر خان…………….شاہد اعوان

سقراط نے 469قبل مسیح میں کہا تھا ”اے ایتھنز کے لوگو! اب تمہیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور کچھ دن بعد تمہیں احسا س ہو گا کہ تم نے ایک عقلمند آدمی کو موت کے گھاٹ اتا ر دیا۔ اگر میں جان بچا کر بھاگ گیا تو مر جائوں گا اور اگر زہر پی کر مر گیا تو قیامت تک زندہ رہوں گا۔”
غلامی کا وہ زمانہ جب مغربی بجلیاں ہمارے شکستہ آشیانے کو جلانے کے لئے مضطرب تھیں، آزادی پسند نیم جاں تحریکوں کے سانس گنے جا چکے تھے دفعتا سرزمین کراچی سے ایک مردِ آہن نمودار ہوا جس نے بکھرے ہوئے انبوہ کو لشکر جرار کی سطوت عطا کی، ہندوئوں کی عیاری اور فرنگیوں کی مکاری کو طشت از بام کیا اور غلامی کی فولادی زنجیریں ریزہ ریزہ ہو گئیں۔
غلامی میں کام آتی ہیں نہ شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
وہ مردِ آہن قائداعظم محمد علی جناح تھے آپ نے سسکتی تنظیموں کے تنِ بسمل میںروحِ آزادی پھونک دی۔ بابائے قوم نے تصور کو تصویر، خواب کو تعبیر، شکست خوردہ کو نصیر اور بندگانِ اسیر کو عالم گیر بنا دیا ۔ یہ ذوالجلال کا اسلامیانِ برصغیر پاک و ہند پر خاص کرم تھا کہ1938ء میں مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال کی وفات سے قریبا اڑھائی سال قبل1936ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شکل میں اسلامیانِ پاک و ہند کا محافظ و محسن بھی کراچی ہی میں پروان چڑھا ، ڈاکٹر صاحب کے دادا عبدالصبور خان بھوپال میں سکونت پذیر تھے آپ کے والد محترم عبدالغفور خان ریاست بھوپال کے وسطی صوبے میں ایک ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے آپ کے والد پاکستان بننے کے بعد 1956ء میں انتقال کر گئے، پاکستان آنے کے بعد اہلِ خاندان نے کراچی میں رہائش اختیار کر لی تھی اور آپ کے چاروں بڑے بھائی کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بھوپال میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی پھر ہجرت کر کے پاکستان آگئے، 1960ء میں ڈی جے سندھ کالج کراچی سے بی ایس سی کا امتحان دیا1961ء میں اعلیٰ تعلیم کے لئے برلن(جرمنی) تشریف لے گئے وہاں آپ کی منگنی اکتوبر 1962ء میں ان کی کلاس فیلو ہنی خان سے ہو گئی ان کی بیگم کا تعلق ہالینڈ سے ہے۔ آپ نے ہالینڈ سے1967ء میں ماسٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری امتیازی نمبروں سے پاس کی، فروری1968ء میں مشہور پروفیسر ڈبلیو بی برگرز کے ساتھ ریسرچ اسسٹنٹ رہے اور تھیسز کے علاوہ ان کے تین مقالے بین الاقوامی جرائد میں بھی شائع ہوئے۔ فروری1968ء میں آپ کو بیلجیم کی مشہور چھ سو سالہ پرانی یونیورسٹی لیوون(LEUVEN)میں ریسرچ فیلوشپ مل گئی جہاں سے آپ نے اپریل 1972ء میں ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب کو متعدد غیر ملکی اداروں کی جانب سے جاب کی پیشکش آتی رہیں لیکن آپ نے وہاں جانا پسند نہ کیا ۔ 18مئی 1974ء کو ہندوستان نے نام نہاد ایٹمی دھاکہ پوکھران راجستھان میں کر ڈالا جس میں ہندوستان کی مدد کینیڈا اور امریکہ نے کی تھی، یہ واقعہ پاکستان کی بقا کے لئے ایک بڑے خطرے کی گھنٹی تھا اس سے قبل 1971ء میں ہندوستان نے کھلی جارحیت کر کے ہمارے ملک کو توڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ اگر پاکستان نے مناسب جوابی اقدام نہ کیا تو مغربی پاکستان کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے خط کے جواب میں بھٹو نے انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر اپنی اہلیہ اور دو کمسن بیٹیاںدسمبر1974ء کو چھٹیوں پر کراچی لائے، آپ نے اسلام آباد آ کر وزیراعظم سے ملاقات کی۔ بھٹو نے ڈاکٹر صاحب کو پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن جا کر معائنے کی ہدایت کی جس پر ڈاکٹر صاحب نے بھٹو کو بتایا کہ وہاں کوئی خاص کام نہیں ہو رہا تو بھٹو غصے میں آ گئے اور کچھ دیر سوچنے کے بعد ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ کا کیا پروگرام ہے؟ ڈاکٹر اے کیو خان نے بتایا کہ وہ15جنوری1976ء کو واپس چلے جائیں گے۔ اس پر بھٹو نے ان سے درخواست کی کہ ملک کی خاطر آپ بیرون ملک نہ جائیں اور اس نازک وقت میں پاکستان کی مدد کریں۔ ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھاکہ ایک طرف یورپ کی پرتعیش زندگی اور اعلیٰ ملازمت تھی اور دوسری طرف ملک کی بقا اور حفاظت کا فریضہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھٹو سے اپنی بیگم سے مشورہ کرنے کے لئے وقت مانگا۔ بیگم کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ہالینڈ میں اعلیٰ ملازمت ہے اور ہالینڈ یورپی کامن مارکیٹ کی نمائندگی کرتا ہے جہاں یورپ اور امریکہ بھی منسلک ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو اپنے ملک کی سالمیت کا خطرہ دامن گیر تھا بالآخر انہوں نے بیگم کو پاکستان رہنے کے لئے منالیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا سربراہ بنا کر تمام اختیارات حتیٰ کہ وزیراعظم کے اختیارات بھی سونپ انہیں دئیے، ان کی تقرری پر جو سازشیں اور مشکلات انہیں درپیش آئیں وہ ایک الگ باب کا متمنی ہے۔ جولائی1976ء میں بھٹو کی ہدایت پر کہوٹہ میں یورینیم کی افزودگی اور ایٹم بم بنانے کے پروگرام کی بنیاد رکھ دی گئی چنانچہ سات برس کے مختصر عرصہ میں انہوں نے اپنے قابل اور محب وطن ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک پسماندہ ملک کو حیرت انگیز طور پر جوہری ایٹمی قوت بنا دیا اور بعد میں ڈلیوری سسٹم کے طور پر غوری کا کامیاب تجربہ بھی کیا۔ 28 اور 30مئی1998ء کو کامیابی کے ساتھ چاغی کے مقام پر6 ایٹمی دھماکے کر کے قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا اس احسانِ عظیم پر پورا ملک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مرہونِ منت ہے اور پاکستانی قوم قائداعظم کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک کی دوسری قابلِ قدر اور ہردلعزیز شخصیت تسلیم کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کو ”محسنِ پاکستان” کا خطاب بھی عطا کیا۔
یہ تو تھی وہ” داستانِ عزم” جس کا احوال قارئین اور خاص طور پر نوجوان سکالرز اور طالبعلموں کے لئے مشعلِ راہ ہے اور ہمارے قابلِ فخر اکابرین کی زندہ جاوید تاریخ ہے ۔ اگر اس وقت ذولفقار علی بھٹو اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان بروقت فیصلہ نہ کرتے تو ذرا سوچئے آج پاکستان کہاں کھڑا ہوتا! مقامِ افسوس تو یہ ہے کہ ان محسنینِ قوم کو بعدازاں کتنی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان محبانِ وطن کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے۔۔۔ بھٹو کو ایک آمر کے ذریعے تختہ دار پر لٹکا یا گیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ انتہائی بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا انہیں قیدِ تنہائی میں رکھ کر شدید ذہنی اذیت پہنچائی گئی، یہ سب کچھ ہماری قومی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر لکھا جاتا رہے گا۔ مدینہ منورہ میں مقیم ایک پاکستانی شاعر حامد علی حامد نے ڈاکٹر صاحب کے لئے کیا خوب کہا:
حیات ہوتے گر اقبال اس زمانے میں
قصیدہ لکھتے وہ اس مردِ جاوداں کے لئے
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بارے میں ان کی وفات کے بعد بہت کچھ لکھا گیا اور لکھاجاتا رہے گا بہت سے لکھاری ڈاکٹر صاحب سے اپنی قربت اور دوستی کے دعوے بھی کر رہے ہیں بلکہ بعضوں نے تو اس انداز میں لکھا کہ جیسے ڈاکٹر صاحب کو ”محسنِ پاکستان” کا اعزاز ملنا اُنہی کے مرہونِ منت ہے ۔۔۔ تاہم گزشتہ تین دہائیوں میں اس کم علم کے مشاہدے کے مطابق ملک کے ممتاز صحافی و مصنف جناب جبار مرزا نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جن مصائب و آلام پر مبنی تحریریں لکھی ہیں اور اس ”محسن” سے اپنی دوستی اور وفاداری کا رشتہ جس طرح نبھایا ہے وہ ہم جیسوں کے لئے ایک سبق ہے۔ موجودہ منافقانہ دور میں جبار مرزا نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ اپنی گہری دوستی اور دلی عقیدت کا بھرم کبھی ٹوٹنے نہیں دیا کہ جب حکمرانوں سے لے کر عشق کے جھوٹے دعویدار سب ساتھ چھوڑ گئے تو اس وقت ڈاکٹر صاحب سے ببانگ دہل اپنی وابستگی اور تعلق کا دم بھرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔ مرزا صاحب نے ”داستانِ عقیدت” میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو انہی کا خاصا ہے وہ حقیقتا ایک درویش صفت انسان ہیں۔ مجھے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی رحلت کے بعد فقیر کو یہ ”جرأت” نہ ہو سکی کہ ُان سے ڈاکٹر صاحب کا پُرسہ کروں کہ میرے پاس مناسب الفاظ ہی نہیں تھے، ایک تو میری بیماری اور دوسرا میرے مربی جبار مرزا کو اپنی محبوب اہلیہ کی جدائی کا صدمہ ابھی ماند نہیں ہوا تھا کہ انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عظیم محسن و دوست کا دائمی فراق سہنا پڑ گیا ۔ گو ڈاکٹر عبدالقدیر اور جبار مرزا کی ایک عادت قدرِمشترک تھی کہ وہ کسی بھی بڑے سانحے اور مصیبت پر اشکبار نہیں ہوتے، لیکن میرا گمان ہے کہ مرزا صاحب تنہائی میں محسنِ پاکستان کی جدائی میں ضرور زارو قطار روتے ہوں گے۔۔۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کا دل پارہ پارہ ہو جاتا اور اگر کسی کو یقین نہ آئے تو انہیں مرزا صاحب کی شہرہ آفاق تصانیف نشانِ امتیاز، چھوٹے لوگ، خراجِ تحسین، عراضہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے دوست کے دفاع میں کیسے دود ھاری تلوار بن جاتے ہیں۔ بندۂ فقیر کی عقیدت بھی ایک عام پاکستانی کی طرح ڈاکٹر صاحب سے کئی دہائیوں پہلے سے تھی لیکن28اپریل2020ء کو ڈاکٹر صاحب نے اس عاجز کو اپنی کتاب ”داستانِ عزم” بذریعہ ڈاک بھجوا کر جو عزت افزائی فرمائی اور پھر میرے کالموں کے اولین مجموعہ ”کہکشاں” کے لئے فلیپ تحریر فرما کر جو عزت بخشی اسے میں اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ تصور کرتا ہوں۔ دعا ہے اللہ پاک ان عظیم ہستیوں کو اپنی شان کے مطابق صلۂ عظیم عطا فرمائے جس کے لئے انہوں نے اپنی جانوں کی بھی پروا نہ کی اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں