نظام تعلیم کی زبوں حالی کی وجوہات……وقاص منیر چوہدری

پاکستان میں نظام تعلیم کی زبوں حالی کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے سب سے پہلی حکومتی لاپروائی، غیر حقیقی منصوبہ بندی اور ملک کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات ہیں۔ اُردو ، انگریزی میڈیم میں تقسیم بھی اس زمرے میں آتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ تمام اُردو میڈیم یا دوسرے الفاظ میں سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار بہت کم ہے اور تمام انگلش میڈیم یا پرائیویٹ اداروں کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ پاکستان میں سکول سسٹمز ایک کاروبار بن چکا ہے جس کے پاس کچھ پیسہ اکٹھا ہوا وہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچنے لگتا ہے ذرا سوچئے کہ جب کاروباری ذہنیت کے لوگ اس میدان کے کرتا دھرتا ہوں تو معیاری تعلیم کی توقع فضول ہے۔ اگرچہ دنیا میں یہ اچھی پریکٹس موجود ہے کہ پرائمری ایجوکیشن میئر کے ماتحت ہوتی ہے اور سلیبس، گرانٹس، جائزہ لینا، یہ سب صوبائی حکومت کے پاس ہوتا ہے تاہم پاکستان میں میونسپل کارپوریشن کے پاس تو اتنے فنڈز ہی نہیں ہوتے، ایسے میں وہ سکولوں کی ذمہ داری کیسے نبھائیں گے۔ایسے میں مستقبل میں بچوں کو دی جانے والے مفت تعلیم اور کتابیں دیے جانے کا سلسلہ بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں یہ بھی سوال ہے کہ اساتذہ کی تنخواہوں اور پینشنز اور ہاؤس رینٹ کا کیا ہو گا۔23 تاریخ کو صدر پاکستان نے اسلام آباد میں بلدیاتی نظام کے حوالے سے آرڈیننس کی منظوری دی۔ اس کی شق نمبر 166 میں لکھا گیا ہے کہ اب سے تمام سرکاری سکول مئیر کے ماتحت ہوں گے اور فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے چیئرمین کی تعیناتی میں مئیر کی رضامندی کو بھی شامل کیا جائے گا۔
گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ نے بلدیاتی انتخابات تو کروائے تاہم منتخب نمائندوں کو اختیار ت نہ دیا جا سکے اور ساتھ ہی میونسپل کارپوریشن کو اسلام آباد میں خاکروبوں کو تنخواہ ادا کرنے میں بھی مسائل کا سامنا تھا اس لیے خدشہ ہے کہ 390 سکولز کے لیے بھی فنڈز نہیں ہوں گے اور اصل بوجھ غریب والدین پر طلبہ کی بھاری فیسوں کی شکل میں ڈالا جائے گا حکومتی نا اہلی کے باعث سرکاری سکولوں کو پہلے بھی نظر انداز کیا جا تا رہا ہے اور یہ اس حکومت میں ہی نہیں ہوا اس سے قبل بھی ناقص پالیسیاں بنائی گئی جس سے یہ نظریہ بھی بنا ہے کہ پرائیویٹ اسکول ہی اچھے ہوتے ہیں۔ آج ہمارے سماج میں یہ نظریہ اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ اس کے برعکس خیالات یا تجربات کو کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔نجی کاری کے پیروکار اسکولی تعلیم کو ایک بڑے بازار کی شکل میں دیکھ رہے ہیں، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری اسکول ہی ہیں۔ اس رکاوٹ کو توڑنے کے لئے وہ نئی-نئی چالبازی کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں جس میں سرکاری اسکولوں میں پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ نظام کو نافذ کرنے، واؤچر سسٹم اپنانے یا کم آمدنی والے لوگوں کے لئے کم خرچ والے اسکول (افورڈیبل اسکول)جیسی تدبیر شامل ہے۔تعلیم کے تجارت کاروں کو اپنے اس کام میں رہنماؤں اور افسرشاہی کی بھی حمایت مل رہی ہے جو عام تعلیمی نظام کو برباد کرنے میں اپنی طرح سے مدد کرتے ہیں جس سے یہ نظام دم توڑ دے اور آخرکار نجی کاری کی سمت میں آگے بڑھا جا سکے ہم تعلیمی نظام کو ایک صورت میں بہتر بنا سکتے ہیں کہ حکومت اپنی ترجیحات میں تعلیم کے فروغ کو سرِ فہرست رکھے۔ اس کے لئے نہ صرف مناسب بجٹ رکھا جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بجٹ کا مناسب اور صحیح جگہ پر استعمال بھی کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں