بہار ہو کہ خزاں، لااِلٰہ اِلا اللہ ——- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

مقامِ شکر کہ بہت مدت بعد اس غم کدہ میں ایک خوشی کا لمحہ اس حوالے سے آیا جب 19 دسمبر کو 41 برس بعد او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس کم از کم اس حوالے سے بھی باعث ِ تازگیٔ روح اور وجہ کشادِ قلب ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک سمیت یورپ، امریکہ و اہم ممالک نے ایک ایسے وقت میں اہم کانفرنس میں شرکت کی جب بیشتر عالمی قوتیں و شرپسند عناصر وطن عزیز کو عالمی تنہائی کی طرف دھکیلنے کی روش پر سرگرم عمل ہیں اور عالمی برادری کے ساتھ بھی بدگمانیوں اور بدظنی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے تھے۔ غیر معمولی اجلاس کا ہونا اس لئے بھی ہمارے لئے وجہ ٔ تسکین خاطر ہے کہ ایک تو تمام مسلم اکثریتی ممالک، مغربی ملکوں کے مبصرین اور مالیاتی اداروں کے نمائندے ایک اہم مقصد کے لئے ایک نکتے پر جمع ہوئے تو دوسری وجہ اس لئے کہ اس اجتماعیت کے اہتمام کی سعادت مملکتِ پاکستان کے حصے میں آئی۔
تشکیل پاکستان کے وقت کم و بیش تمام مسلم اکثریتی ممالک نے اس مملکت کی تخلیق پر مرحبا کہا تھا اور پاکستان کو اپنا امام تسلیم کرلیا تھا، ازاں بعد ہماری اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ہمارے اس مقام میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور اس طرح ان کی نگاہوں میں ہمارا وقار و احترام کم ہوتا چلاگیا۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ برادر مسلم ملک افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لئے کی جانے والی کوششوں سے ہمارا اپنا وقار بھی پھر بحال ہوجائے گا، بشرطیکہ ہم اُن تقاضوں اور مہمان نوازی پر پورے اُترنے میں کامیاب ہوں، جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہوں، بالخصوص عرب ممالک اس باب میں بڑے نازک طبع اور ذکی الحس واقع ہوئے ہیں۔ افغانستان کے نمائندے بھی باقاعدہ مجوزہ کانفرنس میں شریک ہوئے، اس طرح یہ پہلا موقع بنا کہ براہ راست عالمی برادری بالخصوص مسلم اکثریتی ممالک نے اپنے تحفظات اور اقدامات سے افغان طالبان کو آگاہ کیا اور اسی طرح انہوں نے بھی اس اہم موقع سے فائدہ اٹھایا اور مسلم دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے عالمی برادری کو مملکت میں کیے جانے والے اقدامات اور افغان عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا۔ کانفرنس کے نتائج کتنے دوررس نکلتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا، لیکن یہاں غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر سے مسلم اکثریتی ممالک میں رنگ، نسل، زبان وطن کے گوناگوں اختلافات کے باوجود ان سب میں ایک قدر مشترک جو ملی وحدت کا موجب بنی وہ اسلام ہے۔ 21 اگست 1969کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردّعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969کو مراکش کے شہر رباط میں او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا، اُس وقت بھی جسم کے کسی حصے کی تکلیف کی وجہ سے وجود کو درد کے احساس نے اہم مقصد کے لئے اکٹھا کیا تھا۔
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
اسلامی تنظیم تعاون کا قیام ہی اسرائیلی چیرہ دستیوں کی وجہ سے عمل میں لایا گیا۔ عرب ممالک سے وحدتِ عمل کے لئے اہم قدم اٹھایا گیا تھا، جب تیل کی سپلائی میں کمی کا فیصلہ کیا گیا تو اُس وقت اس نہایت خفیف سے اجتماعی عمل نے یورپ اور امریکہ کی فضائوں میں ارتعاش پیدا کردیا تھا۔ اگر ہم اپنے فیصلوں کے سیاسی امور میں وحدت پیدا کرلیں تو دنیا میں طاقت کا توازن ہی نہیں بلکہ دنیا کا نقشہ بھی بدل سکتا ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی کو درپیش مشکلات و تکالیف کے حل کے لئے قدرت کے بیش بہا ذخائر اور اجتماعیت کا یہ اعلان کہ ہمارے درمیان کسی بھی معاملے پر کوئی اختلا ف نہیں، کوئی افتراق نہیں، چاہے ان ممالک کی مقامی زبانیں کچھ بھی ہوں لیکن پیام اسلام یہی ہے کہ ہمارا دین امن، سلامتی اور خلوص و اخوت کا پرچار کرتا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی سے دین اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ آج دنیا بھر میں مسلم امہ کو متنوع مسائل کا سامنا ہے۔ کانفرنس جس مقصد کے لئے منعقد ہوئی، اس پر ہونے والی بحث کے علاوہ اسلامی تنظیم تعاون کے فعال ہونے کا پیام عالمی برادری کو جانا چاہیے۔ پاکستان جو خود دہشت گردی اور انتہاپسندی کا شکار اور شدت پسندی کے خلاف جنگ میں اتحادی بننے کی وجہ سے ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھاچکا، وہ اس ہنگامی اجتماع کے بعد صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ عالمگیر انسانیت کے ارباب ِ نظم و نسق سے گزارش کرے کہ:
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں، مٹ جائے گا
ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استور
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
دعا ہے کہ مجوزہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کامیاب ہو اور امت میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی طرف کوئی مثبت قدم اٹھانے کا پیش خیمہ بن سکے۔ پاکستان برادر اسلامی ملک کے عوام کے لئے تواتر سے دنیا کو باور کرارہا ہے کہ ان حالات میں افغانستان پر مفروضوں کی بنیاد پر پابندیاں عائد کرنے اور معاشی شکنجہ کسنے کا موقع درست اقدام نہیں، کیونکہ چاردہائیوں کے بعد بالآخر ایک ایسا موقع میسر آیا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے سمیت دنیا بھر کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ افغان عوام کی امانت کو امریکہ کی جانب سے اس جواز پر روک لینا کہ نائن الیون کے متاثرین نے نقصانات کے ازالے کے لئے درخواستیں دی ہیں، یہ عمل سراسر مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ گذشتہ 20 برسوں میں امریکہ نے جتنا نقصان افغانستان کو پہنچایا، اگر اس کے نقصانات کی تلافی کرنے کا غیر جانب دارانہ فیصلہ ہوجائے تو امریکہ ایک لمحے میں دیوالیہ ہوجائے اور زر تلافی بھی ممکن نہیں بناسکے گا۔ عوام اس موقع پر مسلم اکثریتی ممالک سے درخواست گزار ہیں کہ
یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بے کراں ہوجا
غبار آلود رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلق شام و سحر سے جاوداں ہوجا

اپنا تبصرہ بھیجیں