ٹکٹوں کی غلط تقسیم اور کے پی بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست………وقاص منیر چوہدری

خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے گہما گہمی دیکھنے میں آ رہی ہے اگرچہ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے وزراکی جانب سے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی بڑی وجہ مہنگائی کو ٹھہرایا جا رہا ہے تاہم کچھ کے نزدیک شکست کی وجہ ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ جنرل الیکشن ہوں بلدیاتی یا پھر سینٹ کے انتخابات ہوں حکمران جماعت میں ہمیشہ سے ٹکٹوں کی تقسیم پر اندرونی اختلافات سامنے آتے رہے ہیں ایسا نہیں کہ دیگر سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم پر تحفظات نہیں ہوتے تاہم تحریک انصاف اس حوالے سے ٹاپ لسٹ رہی ہے۔جنرل الیکشن ہوں ضمنی انتخابات ہوں یا بلدیاتی اسلام آباد میں گزشتہ دس سالوں سے سو شل میڈیا پر ٹکٹوں کی تقسیم پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے، میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ پی ٹی آئی کے تنظیمی عہدیداران ہیں، لازمی نہیں کہ قارئین میری بات سے متفق ہوں گزشتہ جنرل الیکشن میں وفاقی دارالحکومت کے تینوں حلقوں پر صحافتی ذمہ داریاں ادا کیں تاہم این اے 52 اور 53 میں میرے مشاہدے کے مطابق پارٹی اختلافات انتہائی سطح پر ہیں۔ چند کارکنوں کو ساتھ لیے ہر سیا سی جماعت کا امیدوار پارٹی قوانین کو روندتا چلا جاتا ہے۔ پارٹی قیادت میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی کی حمایت حاصل ہو تی ہے یوں ایک ہی پارٹی میں رہ کر اپنے ہی امیدوار کو ہرانے کا سلسلہ جاری ہے اگر ایک کو ٹکٹ مل جائے تو دوسرا مخالف امیدوار کی حمایت میں نکل پڑتا ہے جس کا نقصان پارٹی کو اٹھا نا پڑ تا ہے، سیاسی جماعتوں کے ایسے علاقائی عہدیداران کو اگر سیل مینجر کا لقب دیا جائے تو غلط نہ ہو گا الیکشن سے قبل ہی پارٹی ٹکٹ کے وعدے اور کارنر میٹنگز میں پارٹی قیادت کو اعتماد میں لیے بنا امیدوار نامزد کرنا سیل مینجر بخوبی جانتے ہیں۔ تحریک انصاف میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں تحریک انصاف کو در پیش مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ٹکٹوں کی تقسیم ہے ہر ایم این اے ایم پی اے سینیٹر اور پارٹی عہدیداران کا اپنا اپنا گروپ ہے ہر کو ئی اپنے تعلق کو آگے لانے میں مصروف ہے علاقائی عہدیداران اپنے من پسند امیدوار کو لا نے میں مصروف عمل ہیں اور کو ئی امیدوارو ں سے ٹکٹ کا وعدہ کیے ہوئے ہے جبکہ موقع آ نے پر پارٹی کسی اور کے حق میں ٹکٹ کا فیصلہ کر دیتی ہے جو کارکنوں میں انتشار کا سبب بنتا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال ہی میں ہونے والے کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی ہوا حکمران جماعت صوبہ کے چار بڑے شہروں پشاور، مردان ، کوہاٹ اور بنوں کے مئیر کا انتخاب ہارنے سمیت 50تحصیلوں کا الیکشن بھی ہار چکی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے جب امیدواروں کو ٹکٹ دئیے جارہے تھے تو اسی وقت اختلافات کی گونج سنائی دینے لگی تھی مگر تب پارٹی کے سنجیدہ رہنمائوں کے تحفظات کو نظرانداز کرتے ہوئے سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم کئے گئے اور اسکا خمیازہ پارٹی کو انتخابی نتائج کی صورت میں بھگتنا پڑا۔درحقیقت یہ اتنا بڑا دھچکا ہے کہ اب وزیر اعظم عمران خان کو خود ان تمام معاملات پر میدان میں آنا پڑا ہے، کے پی کے انتخابات میں شکست کے حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے وزیراعظم کورپورٹ پیش کی گئی جس میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کی ذمہ داری صوبہ کے گورنر شاہ فرمان، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، پارٹی کے مرکزی رہنما سیف اللہ نیازی ، وفاقی اور صوبائی وزرا ،9 قومی اور 12 صوبائی اسمبلی کے ارکان پر عائد کی گئی ہے جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی ارباب شہزاد کے خاندان کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اس سے قبل وزیر اعظم شکست کی اصل وجہ غلط امیدواروں کی سلیکشن کو قرار دے چکے ہیں ،یہی چیلنج پنجاب اور وفاق میں بھی پی ٹی آئی کو درپیش ہے سب سے بڑا چیلنج پارٹی ورکرز کی مرضی سے ٹکٹوں کی تقسیم کا ہوگا۔کیونکہ جہانگیر ترین گروپ، کھوسہ گروپ آزاد حیثیت میں جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے اراکین اسمبلی کے حامیوں اور تحریک انصاف کی تنظیم میں شامل عہدیداروں کا ٹکٹوں کی تقسیم پر اتفاق ایک امتحان ہو گا۔بلدیا تی انتخابات کے حوالے سے وفاق میں بھی پارٹی قوانین کو پامال کر تے ہوئے ایسی ہی غلطیاں دوبارہ دوہرائی جا رہی ہیں جس کی مثال چند دن قبل پارٹی تنظیم کے سابق عہدیداروں کی جانب سے مئیر اسلام آباد کے لیے نامزدگی ہے ایک ایسی تنظیم کے عہدیداران جنہیں وزیراعظم کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں شکست پر تنظیمی عہدوں سے برطرف کیا جاتا ہے ایسے میں کھلے عام ٹکٹوں کی تقسیم کرنے اور من پسند شخصیات کو مئیر نامزد کر نا نہ صرف پارٹی قوانین کے خلاف ہے بلکہ آئندہ انتخابات میں پارٹی ورکرز میں انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔ جس مشکل دور سے حکمران جماعت گزر رہی ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے ایسے میں پارٹی اختلافات اور ٹکٹوں کی تقسیم پر اندرونی اختلافات بلدیاتی انتخابات میں حکومتی ناکامی کا سب سے بڑا سبب بن سکتے ہیں۔ کے پی کے انتخابات میں شکست سے حکمرانوں کو اس امر کا اندازہ ہو گیا ہو گا کہ لوگ تقریریں نہیں عمل کو دیکھتے ہیں انہیں مسائل کا حل چاہیے مہنگائی کا خاتمہ درکار ہے قانون کی حکمرانی چاہیے عوام کو اس بات سے غرض نہیں کہ کون دیرینہ کارکن ہے اور کون پیراشوٹر کس کو ٹکٹ دیا جائے یا کس کو نظر انداز، عوام کو بنیادی ضرورتیں چاہئیں اور اگر کوئی جماعت عوام کی خوشحالی اور بہتری کے لیے کام نہیں کرے گی تو وہ یکسر نظر انداز کر دی جائے گی جیسا کہ خیبرپختونخوا میں کیا گیا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں