شر پسند عناصر کا اہلیان مری کیخلاف خبث باطن………………..انیلہ محمود

مری میں برفباری کے طوفان کی وجہ سے رونما ہونے والے سانحہ کو دو دن گزر گئے،اس المناک سانحہ میں کئی قیمتی زندگیاں اپنے پیاروں کو داغ مفارقت دے گئیںجس کا ازالہ چند لاکھ کی ادائیگی سے قطعاََ ممکن نہیں۔کوئی بھی بڑا واقعہ اور سانحہ رونما ہونے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں،بہت سی کوتاہیاں اور نااہلیاں مشکلات کو بڑھا کر سانحہ کی شکل دے دیتی ہیں اور پھر سانحات سے نمٹنے اور اس سے باہر نکلنے کے لئے جب بر وقت اقدامات نہ اٹھائے جائیں،سماجی رویے اپنی بدصورتی عیاں کرنے لگیں اور مفاد پرست اپنی ہوس و طمع کے اسیر ہو جائیں تو اس کی قیمت انسانی زندگیاں کھو کر چکانی پڑتی ہے۔بے شک برفباری اور معمول سے زائد برفباری آسمانی آفت ہے اور اس میں کسی انسان کا عمل دخل نہیں مگر اس آفت سے کئی دن بیشتر آگاہ کیا جا چکا تھا،کئی الرٹ جاری کئے جا چکے تھے سو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیاری بھی بروقت کی جانی چاہئے تھی۔انتظامیہ کا کام صرف سیاحوں سے ٹول ٹیکس جمع کر کے عوام کو خوشحال ظاہر کرنا ہی نہیں تھا بلکہ انہیں اس بات کا حساب کتاب بھی رکھنا تھا کہ مری میں اس برفباری کے موسم میں کتنی گاڑیوں کی گنجائش ہے ،کسی ناگہانی کی صورت میں وہ کیسے اس سے نمٹیں گیاور کیسے سیاحوں کو ریلیف فراہم کریں گے اور کیسے انہیں بخیریت منزل مقصود پر پہنچائیں گے،مگر ہوا کچھ یوں کہ انتظامیہ نے صرف الرٹس جاری کرنے تک اپنی ذمہ داری نبھائی اور دھڑا دھڑگاڑیوں کو مری کی طرف روانہ کرتے رہے،اور جب برفباری شدید ہو گئی اور ٹریفک مکمل طورپر جام ہو گئی تو اس وقت انتظامیہ نے مزید سیاحوں کو مری آمد سے روکنا شروع کیا۔اب ذکر کرتے ہیں اپنے شوقین مزاج عوام کا جنہوں نے کسی کی بھی نہ سننے کی قسم کھائی ہوتی ہے۔بار بار موسم کی خرابی سے آگاہ کیا جاتا رہا مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور وہ ٹریفک کو جام کرنے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔جو لوگ پہلے سے محصور ہو کر موسم کی سنگینی اور انتظامیہ کی کوتاہی کا شکار ہو چکے تھے بعد میں جانے والوں نے مزید راستے بند کر کے نکلنے کی کوئی سبیل ہی نہ رہنے دی۔
اب آتے ہیں ان نفرت پھیلانے والے شرپسند عناصر کی طرف جو اس تمام واقعہ کا ذمہ دار مری کے باسیوں کو ٹھہرا کے نہ صرف اپنے خبث باطن کی تسکین کر رہے ہیں بلکہ قوم میں تعصب پھیلانے کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ مری میں قائم 70فیصد ہوٹل یا تو غیر مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں یا انہوں نے ٹھیکے پر لئے ہوئے ہیں،اس لئے کرائے بڑھانے کا اختیار غیر مقامی مالکان کے پاس ہے۔تیس فیصد مقامی لوگ جو ہوٹل مالکان ہیں انہوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طوفان میں پھنسے لوگوں کو مفت رہائش کی دعوت دی،سوشل میڈیا پرمختلف پوسٹوں اور دیگر ممکن زرائع سے اپنا رابطہ نمبر سیاحوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔مری چونکہ پہاڑی علاقہ ہے اور آبادی سڑک سے میلوں فاصلے پر ہے اس کے باوجود مقامی افراد نے اپنے محدود وسائل کے مطابق سیاحوں تک رسائی حاصل کی اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کی،غیر معمولی برفباری سے پیدا شدہ مشکلات نے نہ صرف سیاحوں کو بلکہ مقامی لوگوں کو بھی مفلوج کر دیا اور انہیں ان کے گھروں تک محدود کر دیاتھا،جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہ جنگل کا علاقہ ہے اور آبادی وہاں سے کافی فاصلے پر ہے۔جنگل کے نزدیک بہت کم رہائشی علاقہ تھا پھر بھی مقامی افراد وقوعہ سے آگاہی ملنے پر دیگر اہل علاقہ کے ساتھ پہنچے اور اپنی بساط کے مطابق صبح سے لیکر شام تک پھنسے ہوئے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتے رہے اور زندہ بچنے والے لوگوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کی اور امدادی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔نفرت پھیلانے والوں سے ایک سوال یہ ہے کہ اگر مری والے ان کے بقول برے ہوتے تو کیا وہاں پر چوبیس گھنٹے تک سینکڑوں فیملیز اور سیاح برف میں پھنسے رہے تو کیا اس گھنے جنگل میں کوئی ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں پتہ چلا ہو کہ خدانخواستہ فیملیز کے زیور اتار لئے گئے یاانکو ایک روپے کا نقصان پہنچا ہو یا کسی خاتون کی طرف بری نظر ڈالی ہو یا خدانخواستہ کسی سے کوئی زیادتی کا واقعہ ہوا ہو، نہیں ہر گز نہیں تو پھر ثابت ہو تا ہے کہ اہلیان مری خاندانی لوگ ہیں جو اپنی بہترین روایات کے حامل ہیں اور مہمان نوازی ان کی پہچان ہے۔ مری کے غیور عوام تو خراج تحسین کے لائق ہیں جنہوں نے پاک فوج کے بہادر بیٹوں کے ساتھ شانہ بشانہ اس کٹھن گھڑی میں سیاحوں کو ریلیف پہنچانے کے کام میں بھر پور حصہ لیا۔ میڈیا کو بھی چاہئے کہ چند مفاد پرستوں کے بجائے تصویر کا اصل رخ پیش کرے تا کہ سیاحوں کی مدد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔اس میں کوئی شک نہیں غیر مقامی ہوٹل مافیا نے مری میں اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور وہ صرف مری نہیں بلکہ ہر سیاحتی مقام پر ہوتا ہے اگر کوئی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا تو وہ بغض کا شکار ہے،ہوٹل کے کرایوں اور دیگر اشیاء پر چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنا حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے نہ کہ مقامی آبادی کی۔اس لئے حکومت اور انتظامیہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس ہوٹل مافیا کو لگام ڈالنے کے لئے کوئی اصول و ضوابط ترتیب دے تا کہ سیاحوں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں