رزم گاہ ………. قادر خان یوسف زئی

جہاں قانون اپنے ہاتھ میں لیا جاتاہے، وہاں دوسرے کو مجبور کرکے اپنے مطالبات منوانے کا ایک طریقہ تو وہ ہے جسے عام طور پر ”قبائلی“ اختیار کرتے ہیں، جیسے کسی شخص کے عزیز کو اغوا کرکے اس سیکہنا کہ اتنا تاوان ادا کرو، ورنہ اس یر غمالی کو ہلاک کردیں گے۔اس طرح ا س شخص کو اپنے مطالبات منوانے پر بالواسطہ مجبور کیا جاتا ہے، اس طریق کو مزید ماڈرن بنا لیا گیا اور ہائی جیکنگ و بحری قزاقی سے لے کر نت نئے طریقے اختیار کئے گئے۔ جمہوریت میں ایک مقبول طریقہ ’احتجاج‘ اور دھرنوں کا ہے، اسے پُر امن قرار دے کر عام شہری کو جتنی تکلیف اور اذیت پہنچائی جاتی ہے اس کا اندازہ یقینی طور پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کو ہوگا کیونکہ یہ عمل پر تشدد ہو یا نہ ہو لیکن ذہنی طور پر جتنا اذیت کا باعث بنتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
جمہوری حق کے نام پر علاقے، مصروف شاہرائیں بند کرکے شہریوں کو جتنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا درست اندازہ لکھا بھی نہیں جاسکتا۔ اعصابی تناؤ، عدم تحفظ کا بد ترین احساس اور اہل خانہ کی بے چینی ایسی کہ موت و حیات کی کش مکش میں وقت گزارتے ہیں۔ وہ خود قطعاََ بے بس اور مجبور ہوتے ہیں کہ وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں کرسکتے۔ عام شہری، جن کا ان دھرنوں اور احتجاجوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان کی کیفیت کسی پھانسی کے تختے پر کھڑے، ان لوگوں کو حسرت بھری نگاہوں سے تکنے والوں کی طرح ہوتی ہے کہ کوئی معجزہ ہوجائے اور مظاہرین کے مطالبات مان لئے جائیں تاکہ اس عذاب سے ان کی جان چھوٹے۔ بیشتر سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ بن چکا کہ جب وہ حزب اقتدار ہوتے ہیں تو ان کا رویہ مختلف اور جب اپوزیشن میں، تو جیسے ملک و قوم کو کسی یرغمالی سے آزاد کرانے کے لئے صبح و شام ایک کردیتے ہیں کہ ہمارے مطالبات تسلیم کرو، ورنہ ہم سب کچھ تہ و بالا کردیں گے۔ احتجاج اور دھرنا بھی جمہوری حق ہے، لیکن جب حد سے سب کچھ آگے بڑھ جائے تو اس میں ان شہریوں کا کیا قصور، جو میزان کے کسی پلڑے میں نہیں، کیا انہیں اسی بات کی سزا دی جاتی ہے کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ان کے ساتھ۔
اہل کراچی تو کئی دہائیوں پر محیط لسانی فسادات و قتل و غارت گیری کے خوف سے ابھی تک نکل ہی نہیں پائے جب اسکول جانے والے بچے اور کام پر جانے والے محنت کش ہڑتالوں اور ہنگاموں میں پھنس جایا کرتے اور اندھا دھند فائرنگ، جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے لاکھوں بچوں کو اسکول تک چھڑانا پڑ ا تو دیہاڑی دار مزدور بے کار رہنے کی وجہ سے بھوکوں مرتے یا پھر رزق کی تلاش کے لئے نکلنے پر شناختی کارڈ پر شناخت کے نام پر ناحق مار دیئے جاتے۔ چھوٹے چھوٹے کاروباری لوگ، خوانچہ فروش وغیرہ تباہ ہوگئے، فسادات کے زمانے میں کتنے مریض دوائی نہ ملنے پر تڑپ تڑپ کر مرے کہ فلاں ہسپتال نہ جانا کہ زبان کے قہر سے جان بھی لے لیتے ہیں۔ ان تمام ہنگامہ آرائیوں سے کون تنگ ہوا؟۔کیا ہمارے وہ حضرات بتائیں گے کہ ان کے ایسے ”جمہوری عمل“سے نقصان کس کا ہوتا ہے، حکومت کا یا عوام کا، جس نے کوئی جرم تک نہیں کیا تھا۔ اس دوران نقل و حرکت بند ہونے اور سنگین نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے سے نقصان کا ازالہ کس طرح ممکن ہوگا کیا اس پر کسی نے کبھی سوچا کہ سب کچھ تو آناََ فاناََ کرلیا جاتا ہے لیکن اس کے مضمرات کتنے طویل المدت ہوتے ہیں، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالات خراب ہوں تو ارباب ِ اقتدار کو غیر مقبول قدم اٹھانا پڑتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی بھی ذمے داری کس پر زیادہ عائد کی جائے۔اصل ذمے داری عائد ہوتی ہے اس آئین پر، جس کے تحت ارباب ِ اقتدار کو اس قدر وسیع اختیارات حاصل ہوگئے، جن کی رو سے ان کے فیصلوں کے اثرات ملک و قوم پر یکساں اثر انداز ہوتے ہیں۔ صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو بھی سوچنا چاہے کہ وہ کس وقت اور کس تغافل اور تساہل کا مظاہرہ کرکے ملک و قوم کا کون سا چہرہ دنیا کے سامنے لانا چاہتے ہیں۔ بد قسمتی سے ان سب کا خمیازہ اس بدنصیب عوام اور سوختہ بخت ملک کے عام شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے جو کسی بھی قسم کی کھیل کا حصہ کبھی نہیں بنتے لیکن طرفہ تماشا یہ کہ اسے قوم کی خدمت قرار دے کر زخم پر نمک پاشی کی جاتی ہے۔درحقیقت عام شہری تو کیا سیاسی جماعت کے کارکنان بھی نہیں سمجھ نہیں پا رہے کہ اس وقت یہ ملک اس مقام پر کھڑا کانپ رہا ہے جس کے متعلق (محاورۃََ کہا جاتا ہے کہ) پیچھے آگ اور آگے سمندر ہے، اگر ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو ملک مسلسل خلفشار اور انتشار کی رزم گاہ بنا رہے گا، حالیہ سیاسی حالات نے یہ ثابت کردیا کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کا پارلیمان میں طریق، سیاسی اجتماعات سے برعکس ہوتا ہے، ان کے ایسے رویئے اور ماضی میں ہونے والے واقعات کے اسباق سے اندیشہ ہے کہ قول و فعل کے تضاد کو ختم نہیں کیا گیا تو ملک کی سا لمیت خطرہ میں پڑجائے گی۔
اب بھی وقت ہے کہ سیاسی تنازعات کو سچے اور کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر حل کرلیں، سیاسی جماعتوں کے مابین دیرینہ تنازعات میں جتنی تاخیر ہوگی اس کے حل میں مضمرات اس قدر بڑھتے جائیں گے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اس کی ضرروت کا ادراک اور احساس جتنا جلد ہوسکے، اتنا ہی بہتر ہے، معاشرہ اس وقت بدترین عدم تحفظ اوربے یقین مستقبل کا شکار ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی موجودہ شکل ہر شعبے پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے نزدیک، اس کا مفاد ملک و قوم سے بڑھ کر کچھ اور نہیں ہونا چاہے، بدنصیبی کہ آج ایک عام شہری اپنے مستقبل کے لئے تفکر کا شکار ہے۔ ارباب اختیار کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر بعض سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے بے بنیاد اور لغو بیانات کے دراز سلسلے کو ختم نہیں کیا تو اس کے منفی نتائج کے لئے انہیں خود بھی تیار رہنا ہوگا۔ عام شہری کو ٹھوس اقدامات نظر آنے سے ہی طمانیت ہوگی۔
تُو رزم گاہ ِ تجسس میں دُو بدُو بھی نہیں
شکست خوردہ نہیں میں تو سرخرو بھی نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں